
تحریک انصاف سے علیحدگی
بدھ 24 ستمبر 2014

ذبیح اللہ بلگن
(جاری ہے)
چاچے ماجھے نے میر ی باتیں غور سے سماعت کیں ا وربس میرا گریبان نہیں پکڑا وگرنہ اس نے وہ سب کچھ کیا جسے عرف عام میں” بے عزتی“ کہا جاتا ہے ۔ چاچا ماجھا کہنے لگا ”اوئے تھالی کے بینگن !کل تم عمران خان کے ساتھ تھے آج حکومت کے ساتھ مل گئے ہو ، تمہیں شرم نہیں آتی ؟“میں نے عرض کیا ”چاچا! جس طرح غالب کو پہلے پہل حال دل پر ہنسی آتی تھی اور پھر بعد میں کسی بات پر نہیں آتی تھی بالکل اسی طرح مجھے بھی شروع شروع میں شرم آتی تھی مگر اب نہیں آتی ۔ چاچا دوبارہ گویا ہوا”اگر دھرنوں کی روح پرواز کر گئی ہے اور بد روحیں ڈی چوک پر قابض ہیں تو وفاقی دار لحکومت اسلام آباد کے داخلی راستوں پر ہزاروں کنٹینر کیونکر لگا رکھے ہیں ، عوام نے عمران خان کی اپیلیوں کو در خور اعتنا نہیں جانا تو وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف جس شہر پہنچتے ہیں گو نواز ۔۔گونواز کے فلک شگاف نعرے ان کا استقبال کیوں کرتے ہیں ؟،کیا عجب ہے دھرنے اپنی موت آپ مر چکے ہیں مگر سارے پنجاب سے روزانہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیاجاتا ہے ،عوام نے دھرنوں کی سیاست کو ٹھکرا دیا ہے اور اسمبلی کا مشترکہ اجلاس روزانہ کی بنیاد پر انہی دھرنوں پر نوحہ خوانی کرتا دکھائی دیتا ہے ، اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین سے پانچ ہزار لوگ شام کو اکٹھے ہوتے ہیں اور ان پانچ ہزار لوگوں کیلئے 30ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں ، تحریک انصاف کے سربراہ کو محفوظ راستہ دینے کیلئے حکومت آمادہ و تیار ہے تاہم وہ خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر پارلیمنٹ کی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے اور ان کی جائز و ناجائز ”خواہشات“کی تکمیل پر مجبور ہے ۔ اوئے بے پیندے کے لوٹے!مجھے یہ بتا تمہیں کس نے بتایا ہے کہ عمران ناکام ہو گیا ہے ؟، عمران کی سوچ اس کی آواز بن کر اسلام آباد سے بلند ہوتی ہوئی تمام پاکستان میں گونج رہی ہے ، آج اہلیان پاکستان واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہیں ایک پرانے سیاسی نظام کی زنجیروں میں پابند سلاسل رہنے کے خواہشمند اور دسرے ان زنجیروں سے آزادی حاصل کرنے کی تمنا کرنے والے ،یعنی اب پاکستان میں دو ہی نظریے ہیں ایک پرو عمران اور ایک اینٹی عمران ۔ تم یہ مان جاؤ کہ عمران کے اس احتجاج نے سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں استحصال زدہ پاکستانی عوام کو اپنے بنیادی اور حقیقی حقوق سے روشناس کروایا ہے ۔“
مجھے جب اندازہ ہو گیا کہ چاچا چپ ہونے والا نہیں تو میں بھی جوش جذبات میں گویاہوا”بس کر چاچا بہت ہوگئی تیری یاوا گوئی اور اب حکومت کے خلاف کوئی بات نہ کرنا ۔اسلام آباد میں نہ تو کوئی کنٹینر زہیں اور نہ ہی تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور ایک بات یاد رکھنا یہ ملک کے سیاستدان ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک قائم ہے وگرنہ تم جیسے ان پڑھ جاہل اور گنوار کب کا اس ملک کو رو پیٹ چکے ہوتے “۔ چاچا ماجھا بھی اب جذبات کی رو میں بہہ رہا تھا فوراََ جوابی حملہ آور ہوا اور مجھ سے الجھنے لگا ۔قارئین کی دلچسپی کیلئے میں چاچے ماجھے اور اپنے مابین ہونے والی گفتگو یہاں رقم کر رہا ہوں ۔
چاچا:پاکستان کے سیاستدانوں نے پاکستان کو بچایا نہیں بلکہ لوٹا ہے ۔سیاست میں آنے سے قبل جو سیاستدان لاکھ پتی تھا وہ کروڑ پتی بنا اورجو کروڑ پتی تھا وہ ارب پتی بن گیا ہے ۔اربوں کھربوں کے کے مالک یہ سیاستدان اس ملک کے قومی خزانے میں ٹیکس جمع کروانے کو بھی تیار نہیں ۔ حتیٰ کہ اس ملک کا وزیر اعظم صرف پانچ ہزار روپے ٹیکس دیتا ہے ۔
راقم:اس میں کون سی بڑی بات ہے عمران خان کے دھرنے میں بھی تو لڑکیا ں اور لڑکے اکٹھے ہوتے ہیں ۔
چاچا:مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اسی کی دہائی سے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں جبکہ ان کے اقتدار میں آنے سے ملک کے مجموعی قرضوں میں اضافہ ہوا اور پاکستان آئی ایم ایف کے بوجھ تلے دبنے کے باوجود ترقی سے ہمکنار نہ ہوسکا بلکہ مزید ابتری کا شکار ہوا۔
راقم:اگر مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک کو لوٹا ہے تو عمران خان کے جلسے میں بھی تو ناچ گانا ہوتا ہے ۔
چاچا:یہ تم کیا جواب دیتے ہو میں کچھ کہتا ہوں تم جواب کچھ دیتے ہو۔ کیا شریف فیملی نے بینکوں کے چار سو ارب روپے ادا نہیں کرنے؟
راقم: اگر شریف فیملی بینکوں کی نادہندہ ہے تو عمران خان بھی تو صبح نیند سے بیدار ہو کر کنٹینر سے بنی گالہ چلا جاتا ہے ۔
چاچا: تمہارے پاس دلیل کے مقابل دلیل نہیں ہے اور تم بے سروپا اور بے ہودہ باتیں کر رہے ہو۔جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ کے سوالات کے جوابات دینے کی بجائے الزامات اور کردار کشی کرنے میں جتے ہو۔ اوئے بلگن !میں تمہیں بتا دوں تمہاری یہ جھوٹ کی دنیا تباہ ہونے کو ہے ۔ تمہارے جھوٹے پراپیگنڈے اپنی موت مرنے والے ہیں اب پاکستان کے ماجھوں اور بھولوں کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ تم ہی جو ہوس شکم مٹانے کیلئے ارض پاک کے بے پناہ وسائل پیٹ میں اتار چکے ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذبیح اللہ بلگن کے کالمز
-
پاک بھارت کشیدگی
بدھ 28 ستمبر 2016
-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتوار 12 جون 2016
-
مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر
جمعہ 13 مئی 2016
-
مودی کی “اچانک “پاکستان آمد
اتوار 27 دسمبر 2015
-
بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟
ہفتہ 5 دسمبر 2015
-
نریندر مودی کا دورہ کشمیر
پیر 9 نومبر 2015
-
مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015
ذبیح اللہ بلگن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.