
بکرے سے مکالمہ
منگل 30 ستمبر 2014

ذبیح اللہ بلگن
(جاری ہے)
بکرے نے اپنے اگلے پاؤں پر وزن ڈالا اور اٹھتے ہوئے کہنا لگا”بینگن صاحب ! میں بھی سنت ابراہیمی کی بات کر رہا ہوں ۔(میں نے فوراََ احتجاج کیا اوئے بینگن نہیں بلگن کہو)
بکرے نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگا معاف کرنا زرا زبان پھسل گئی تھی ۔ تو میں عرض کر رہا تھا ابراہیم کی ذات مطہرہ میں تمہیں صرف بکرے یا دنبے کو ذبح کرنے والا عمل یاد ہے باقی ان کی حیات مبارکہ کے کسی پہلو کی اقتدا کرنا تم پر فرض یا سنت نہیں ۔ بکرے کو ذبح کرنے کا عمل تمہیں یاد رہ گیا مگر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کیلئے لٹانے کو تم نے فراموش کر دیا ۔ انہوں نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو ذبح کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی مگر تم نے اولاد کی خاطر اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو تہس نہس کر دیا۔ اولاد کی خوشحالی کی خاطر جھوٹ بولتے ہو، حرام مال کماتے ہو، سود کھاتے ہو ۔
حضرت ابراہیم نے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جو تابناک نظیر قائم کی ہے کیا اس کی اقتدا کی ضرورت نہیں ؟۔ تم اپنے حکمرانوں کی ناراضگی کے خوف سے ان کے سامنے حق بات کہنے سے خوف کھاتے ہو جبکہ ابراہیم حق گوئی و بے باکی کی عملی تصویر بن کر آتش نمرود میں کود پڑے ۔ ابرہیم کی جانور قربان کرنیو الی سنت تمہیں یاد رہی گئی مگریہ بھول گئے کہ انہوں نے حق گوئی کی پاداش میں اپنے آبائی وطن اور گھر کو خیر باد کہہ دیا تھا ۔ آج تم گھر بنانے اور اسے تمام آسائشوں سے آرستہ کرنے کیلئے حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز ہو گئے ہو ۔ حضرت ابراہیم نے اپنے غیر مسلم باپ کے ساتھ بھی جب مکالمہ کیا تو احترام کو ملحوظ رکھا اور اپنی نگاہیں باپ کی نگاہوں سے بلند نہیں ہونی دیں مگر تم کیا کرتے ہو۔ عید کے دن بھی اپنے بوڑھے باپ کو گھر کی ڈیوڑھی پر ٹوٹی چار پائی پر بٹھائے رکھتے ہو اور ساری توجہ اور محبت اپنی اولاد پر نچھاور کرتے ہو۔ حضرت ابراہیم جب تک کسی مہمان کو اپنے ساتھ شامل نہ کرلیتے کھانا تناول نہ کرتے اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اسی پیغمبر کے نام پر جانور ذبح کر کے سارا گوشت فریج میں محفوظ کر لیتے ہو جبکہ تمہارے محلے کے غریب اور مفلس عید کے روز بھی دال سے روٹی کھاتے ہیں ۔ کس سنت کی بات کرتے ہو ؟ یار تسلیم کر لو کہ تم جانوروں کو قربان سنت کیلئے نہیں معاشرے میں اپنی ناک بنانے کیلئے کرتے ہو۔ تم نے علامہ اقبال کا شعر نہیں سنا ؟ ”تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں “اور خود اللہ رب العالمین نے عید الاضحی کی قربانی کے حوالے سے سورة حج میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ
''اللہ کو ہر گز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون مگر اسے تمھاری طرف سے تقوی پہنچتا ہے''
میں نے بکرے کی باتیں سننے کے بعد فیصلہ کیا کہ میں بکرے کی خوبصورت باتیں سننے کے باوجود اسے آزاد نہیں کروں گا بلکہ اس عید پربکرے کے ساتھ ساتھ خواہشات نفس کی بھی قربانی کروں گا۔میں اپنی انا کی قربانی کر کے چار سال سے ناراض اپنے حقیقی بھائی سے صلح کرلوں گااورمیں اپنی بہنوں کو وراثت میں حصہ دے کر اپنے لالچ کی قربانی کروں گا۔میں اپنی بوڑھی ماں کو اپنے گھر واپس لا کر اس کی خدمت کر کے بیوی کی اجارہ داری کی قربانی کروں گا۔ شائد اس طرح میں قربانی کی اصل روح تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ذبیح اللہ بلگن کے کالمز
-
پاک بھارت کشیدگی
بدھ 28 ستمبر 2016
-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتوار 12 جون 2016
-
مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر
جمعہ 13 مئی 2016
-
مودی کی “اچانک “پاکستان آمد
اتوار 27 دسمبر 2015
-
بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟
ہفتہ 5 دسمبر 2015
-
نریندر مودی کا دورہ کشمیر
پیر 9 نومبر 2015
-
مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015
ذبیح اللہ بلگن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.