
پاک بھارت کشیدگی اور تصوراتی مذاکرہ
پیر 13 اکتوبر 2014

ذبیح اللہ بلگن
(جاری ہے)
قارئین کی سہولت کیلئے مہمانوں کے غیر مانوس اسمائے گرامی کی بجائے میں یہاں ان کے ملک کے اعتبار سے انہیں مخاطب کرتا رہوں گا تاکہ بات سمجھنے میں آسانی رہے ۔
لیجئے جناب پروگرام کا آغاز کچھ یوں ہوا ۔میزبان: جناب بھارتی صاحب آپ یہ بتایئے کہ بھارت ایل او سی پر گولہ باری کیوں کر رہا ہے ؟۔
بھارتی:میزبان صاحب مجھے لگتا ہے کہ آپ کی معلومات دفاعی اور عسکری امور کے متعلق نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یہ کوئی گولہ باری نہیں ہو رہی تھوڑا سا ٹھاہ ٹھاہ ہے کچھ دنوں تک ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ کو ہرمن گورنگ کا نام یاد ہے؟چلیں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہرمن گورنگ ہٹلر کا سیکنڈ ان کمان تھا ۔ وہ ایک جنگ میں گرفتار ہوگیا اور اس پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلا ۔ ایک ماہر نفسیات نے جیل میں اس کا تفصیلی انٹرویو کیا ۔ اس نے ہرمن گورنگ سے پوچھا تھا کہ ہٹلرنے پوری جرمن قوم اپنی تباہ کن پالیسیوں کے پیچھے کیسے لگالی؟۔گورنگ نے جواب دیا ”لوگ کبھی جنگ پر آمادہ نہیں ہوتے کسی بھی ملک کے لیڈر ہوتے ہیں جوایسی پالیساں بناتے ہیں ،بس اتنا کرنا ہوتا ہے کہ انہیں کسی ممکنہ خطرے سے ڈرا کر حب الوطنی کے جذبات بھڑکا دیے جاتے ہیں اور یہ بات ہر ملک میں یکساں کارگر ثابت ہوتی ہے “۔ لہذا میزبان صاحب! موجودہ حالات میں بھارت اور پاکستان کے عوام کی حب الوطنی بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ بھارت میں حال ہی میں جو23نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان میں نریندر مودی کی جماعت کو 13نشستوں پر شرمناک شکست کا سامنا کرناپڑا ہے ۔لہذا قرار دیا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی کی جماعت بے جے پی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے روبہ زوال ہے ۔ ادھر پاکستان میں آپ دیکھیں وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سیاسی بحران کا سامنا ہے ۔ سنا ہے ان کے خلاف ملک بھر میں ”گو نواز گو“کے نعرے لگ رہے ہیں اور تحریک انصاف ان کے مستعفی ہونے تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا عزم بار بار دہرا رہی ہے ۔ میرے خیال میں دونوں ممالک کو اپنے عوام میں ”حب الوطنی“بیدار کرنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ حب الوطنی کو بیدار کر کے عوام اور حکومت کو” دفاع وطن“ کے پلیٹ فارم پر یکجا کیا جاسکے۔ ہو سکتا ہے یہ ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں اسی مقصد کیلئے ہوں ۔
میزبان: بھارتی صاحب آپ کیا عجیب منطق پیش کر رہے ہیں بھارتی گولہ باری سے اب تک 12معصوم پاکستانی شہید اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں ۔ آپ کے استدلال کو کیونکر درست تسلیم کیا جاسکتا ہے ۔ (میری بات ابھی جاری تھی کہ امریکی صحافی درمیان میں بول پڑا )
امریکی:میزبان بچے !تم اس دلیل کو یکسر رد نہیں کر سکتے کیونکہ میری ملاقات عالم ارواح میں کچھ پاکستانیوں سے ہوئی ہے جنہوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ لاہور کے علاقہ ماڈل ٹاؤن میں کسی ڈاکٹر طاہر القادری کے کہنے پر احتجاج کر رہے تھے اور انہیں بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے انہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ شائد وہ 13لوگ تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ تمہیں کیوں گولیاں ماری گئیں ؟ ۔ ان کا جواب تھا کہ وہ حکومت کو ختم کرنے کیلئے احتجاج کر رہے تھے حکمرانوں نے اپنے قتدار کو محفوظ بنانے کیلئے ہمیں گولیوں کا نشانہ بنایا ۔ میزبان برخوردار ! جب تم حکومتوں کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنی پولیس سے 13لوگ قتل کر سکتے ہو ،کراچی میں آئے روز قتل و غارت گری ہوتی ہے انتظامیہ کو معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کون ہیں مگر محض اس وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ان کی گرفت کرنے سے کوئی ایک جماعت ناراض ہو جائے گی اور اس جماعت کی ناراضگی سے حکومت کے غیر مستحکم ہونے کا خدشہ لاحق ہے ۔ اسی طرح تمہارے شمالی علاقوں میں آئے روز ڈرون حملے ہوتے ہیں جن میں متعدد بے گناہ شہری ہلاک ہو جاتے ہیں تمہارے حکمران محض اس لیے ان حملوں کے خلاف دوٹوک اور حتمی بات نہیں کرتے کہ اس سے امریکہ کی ناراضگی کا خطرہ ہے اور اگر امریکہ ناراض ہوگیاتو حکومت کا وجود خطر ے میں پڑ جائے گا ۔ آپ لوگ دعائیں دو پاکستانی فوج کو جس نے بروقت آپریشن ضرب عضب کا آغاز کر کے دہشت گردی کے سیل رواں کے آگے بند باندھ دیا وگرنہ تمہارے حکمران تو طالبان کے سامنے بھی جی جی کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔ کچھ پاکستانیوں کی شہادت سے اگر حکومت مستحکم ہو جاتی ہے اور عوام گو نواز گو کی بجائے ”بھارت مردہ باد“کے نعرے لگانے لگ جاتے ہیں تو یہ سودا خسارے کا نہیں ۔امریکی صحافی کی بات شائد ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کی اسرائیلی صحافی شمعون نے لقمہ دیا ۔
اسرائیلی :دیکھیں جی میزبان صاحب !میں اپنے امریکی بھائی کی بات کوآگے بڑھاتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ہمارا ملک اسرائیل بھی جب محسوس کرتا ہے کہ اسرائیلی عوام اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودی بزنس مین اسرائیل کو محفوظ تصور کر کے مالی اعانت کم کرنے لگے ہیں تو فوری طور پر فلسطین یا لبنان پر دو چار گولے داغ دیے جاتے ہیں ۔ جس کے رد عمل کے طور پر کبھی فلسطین اورکبھی لبنان جوابی فائر کرتے ہیں لہذا یوں کچھ دنوں کیلئے جنگ چھڑ جاتی ہے اور دنیا بھر میں پھیلے یہودیوں اور اسرائیلی عوام میں حب الوطنی کے جذبات بیدار کر کے سرکاری خزانے کو بھر لیا جاتا ہے اور اس خزانے کو اپنی مرضی بروئے کار لایا جاتاہے ۔ امریکی بھائی میری بات کی تائید کرے گا کہ خود پینٹا گون کو بھی ایسی ایکسر سائز سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ ماضی میں جیسے ہی کانگریس پینٹاگون کے فنڈز محدود کرنے کا سوال اٹھاتی تھی فوراََ اسامہ بن لادن کی آڈیو ٹیپ منظر عام پر آجاتی تھی اور اب اسامہ کے بعد یہ”خدمت“ایمن الضواہری سے لی جارہی ہے ۔ لہذا میں بھارتی صحافی کی بات سے متفق ہوں کہ چند دنوں تک پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں پر امن قائم ہو جائے گا فی الحال دونوں ممالک کے عوام کی حب الوطنی بیدار کرنا مقصود ہے ۔
محترم قارئین !پروگرام ابھی جاری تھا کہ مسجد کے اسپیکروں سے اذان کی آواز سنائی دی سو میں نے باقی پروگرام کو کل کیلئے التوا میں ڈالا اور بستر سے اتر کر کے غسل خانے میں گھس گیا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذبیح اللہ بلگن کے کالمز
-
پاک بھارت کشیدگی
بدھ 28 ستمبر 2016
-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتوار 12 جون 2016
-
مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر
جمعہ 13 مئی 2016
-
مودی کی “اچانک “پاکستان آمد
اتوار 27 دسمبر 2015
-
بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟
ہفتہ 5 دسمبر 2015
-
نریندر مودی کا دورہ کشمیر
پیر 9 نومبر 2015
-
مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015
ذبیح اللہ بلگن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.