
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- ظہیر احمد
- ڈاکڑ شاہد مسعود اور نواز شریف کے معاملات پر میڈیا کے الگ موقف کیوں؟
ڈاکڑ شاہد مسعود اور نواز شریف کے معاملات پر میڈیا کے الگ موقف کیوں؟
منگل 30 جنوری 2018

ظہیر احمد
(جاری ہے)
اب میڈیا پر باقی سنئیر لوگوں کا موقف ہے کہ ایسے لوگ جو غلط خبریں دیتے ہیں انکا عدالت احتساب کرے اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔۔یہ مطالبہ بھی بلکل درست ہے ۔اب سوال یہ ہے میڈیا کا وہ حصہ بھی یہ مطالبہ کر رہا جو پانامہ کیس کے معاملے پر نواز شریف کے خلاف مقدمات پر عدالت کے خلاف ہے اور نواز شریف کے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوئی ہے اور عوام کو حق حاصل کہ ووٹ کے ذریعے ایسے فیصلوں کو رد کر دیا جائے کہ جن کے تحت کسی وزیر اعظم کو نااہل کردیا جاتا ہے اور ووٹ کی یا عوام کی رائے کی توہین کی جاتی ہے ۔
اور پانامہ کیس میں بھی ثبوت اور دلائل موجود ہیں اعتراف بھی موجود ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نواز شریف اور انکے خاندان کی طرف سے اپنے دفاع میں کچھ بھی موجود نہیں ۔۔تو کیا یہاں پانچ جج لاعلم ہوگئے جنھوں نے چھ ماہ کیس سنا اور عوام ایک دم عالم فاضل ہوگئے؟؟؟ آگے جار اسی شو میں ایک سیاستددان فرماتی ہیں کہ ہم نے لوگوں کو ٹیون ہی ایسے کر دیا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کا یقین کر لیتے ہیں اور ایک اور صحافی نے کہا کہ یہ شخص چودہ سال سے لوگوں کو یہی بتا رہا ہے ۔۔بلکل ٹھیک کہا تو شریف خاندان تیس سال سے یہی کچھ بتا رہا ہے تو چودہ سال کا اثر زیادہ ہوگا یا تیس سال کا زیادہ ہو گا؟؟؟
ایک اور سیاستدان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جہالت بہت زیادہ ہے ۔۔۔۔درست فرمایا جہالت زیادہ ہی ہوگی مگر نواز شریف کے کیس کے معاملے میں اسی جہالت کا دفاع کیوں؟؟؟ ووٹ کے تقدس کی رٹ کیوں ؟؟ عدالتوں کے فیصلے کے مقابلے میں عوامی مینڈیٹ کی باتیں کیوں؟؟؟ یہاں یہ نقطہ اٹھانے کا مقصد ہرگز عوامی مینڈیٹ کی توہین نہیں بلکہ وہ دوہرا معیار ہے جو کہ میڈیا کے حلقوں میں اپنی پسند نا پسند کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔۔۔اور یہ سوال اٹھانا مقصد ہے کہ ایک حکمران جس نے اثاثے بنائے ہوں جو عدالت کو مطمئن نہ کر سکا ہو جو اپنے بے گناہ ہونے کا ثبوت نہ دے سکا ہو تو کیا وہ عوامی ووٹ اور عوامی مینڈیٹ کے پیچھے چھپ سکتا ہے؟ کیا وہ شخص جس کے اپنے اوپر اتنے سوالات ہوں وہ معزز ججوں پر الزامات لگا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر ڈاکڑ صاحب بھی کہہ سکتے ہیں میری ریٹنگ سب سے زیادہ ہے میری باتیں عوام سنتی بھی ہے اور یقین بھی کرتی ہے میں کہیں بھی چلا جاوں لوگ جوک در جوک سلام کرنے اور تصاویر بنانے کے لیے جمع ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو ہی فیصلہ کرنے دیں کہ میں درست کہہ رہا ہوں یا غلط کہہ رہا ہوں ۔۔۔پھر عدالتوں کی کیا ضرورت انکو تو بند کر دینا چاہیے اور ہر معاملے کا فیصلہ عوام کو ہی کرنے دیا جائے اور عوام کو ایک کے معاملے میں مقدس کہنا اور عوامی رائے کو ہی آخری رائے کہنا جبکہ دوسرے معاملے میں عوام کو جاہل کہنا اور ان پڑھ گنوار کہنا بند کیا جائے یہ دوہرا معیار اور منافقت بند کی جائے۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ظہیر احمد کے کالمز
-
محترم سہیل وڑائچ کے کالم کے جواب میں
منگل 13 فروری 2018
-
نہال ہاشمی کو اور مارو یانہ مگر نیم فلاسفر خطرہ قوم
جمعہ 9 فروری 2018
-
ڈاکڑ شاہد مسعود اور نواز شریف کے معاملات پر میڈیا کے الگ موقف کیوں؟
منگل 30 جنوری 2018
-
تالیاں اور مبارک تو بنتی ہے صاحب
اتوار 28 جنوری 2018
-
ایک بار پھر شہباز شریف کی وہی پرانی بھڑکیں
بدھ 24 جنوری 2018
-
سڑکوں پر گھسیٹنے سے گھٹنے پکڑنے تک
پیر 20 جون 2016
ظہیر احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.