تالیاں اور مبارک تو بنتی ہے صاحب

اتوار 28 جنوری 2018

Zaheer Ahmed

ظہیر احمد

منگل کو شہباز شریف صاحب کی پریس ٹاک آپ سب نے بھی سنی ہوگی ۔۔جس میں انھوں نے بڑے فخر سے زینب کا قاتل پکڑے جانے کی خبر سنائی اور اس پر تالیوں کی گونج میں مبارک بادیں لیں بھی اور دی بھی ۔۔تالیوں کی گونج اور سب کے ہنستے مسکراتے چہروں کے درمیان زینب کے والد امین انصاری بھی موجود تھے جو ان سب کی خوشی دیکھ کر شائد سوچ رہے ہوں کہ انکی زینب واپس آگئی ہے
محترم شہباز شریف صاحب نے کہا کہ چودہ دن کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے مجرم پکڑا گیا ۔

۔۔جی ہاں درست فرمایا خادم اعلی نے بلکل درست کہا یہ چودہ دن کی شبانہ روز محنت کا ہی نتیجہ ہے مگر ان لوگوں کی محنت جنھوں نے خاص کر قصور اور پورے ملک میں احتجاج جاری رکھا اور پولیس اور حکو مت پر دباو ڈالے رکھا۔

(جاری ہے)

۔۔۔یہ محنت ہی کا نتیجہ ہے اس کا میڈیا اور سوشل میڈیا کابھی جس نے چودہ دن تک اس ایشو کو زندہ رکھا باوجود اسکے کہ رانا ثناء جیسے وزراء کی طرف سے کہا گیا کہ میڈیا مبالغہ آرائی کر رہا ہے ۔

۔۔یہ سول سوسائٹی کی بھی محنت ہے کہ جس نے ہر ہر فورم پر آواز اٹھائی ۔۔۔یہ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے سوموٹو نو ٹس بھی ہیں کہ جنھوں نے حکومت کو جھنجوڑے رکھا ۔۔۔۔ورنہ یہی پولیس تھی کہ جس کے آفیسر نے معصوم زینب کی کوڑے پر پڑی لاش تلاش کرکے کہا تھا کہ اب لاش ملنے پر دس ہزار انعام بھی دیا جائے ۔۔۔یہی پولیس تھی کہ جس نے اسی عمران کو گرفتار کرکے چھوڑ بھی دیا گیا تھا یہی پولیس تھی کہ جس نے احتجاج کے دوران فائرنگ کرکے الٹا دو معصوم لوگوں کی جان لے لی۔

۔۔یہی پولیس تھی اور یہی حکومت تھی کہ دس بچیاں تو صرف قصور میں قتل کر دی گئیں اور پولیس ان بچیوں کے گھر والوں کو سوائے تنگ کرنے کے کچھ نہ کرسکی ۔۔کہاں تھی ایشاء کی سب سے اچھی اور مانی ہوئی فرانزک لیب ۔۔کیوں اس وقت اس سے کام نہ لیا گیا ؟؟ اس وقت ڈی این اے کیوں نہ کیا گیا ؟ پہلی بچی کے قتل کے بعد ایسی شبانہ روز محنت کیوں نہ کی گئی ؟ عائشہ آصف کے قتل کے بعد یہ سب کیا جاتا تو زینب سمیت ایمان فاطمہ لائیبہ نور فاطمہ تحمینہ کائنات بتول کو بچایا جا سکتا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔اور یہ تفصیل تو صرف ایک ضلعے قصور کی ہے ورنہ صوبہ تو ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے
خادم اعلی نے زینب کے قاتل کو پکڑے جانے کو بہت بڑا کارنامہ قرار دے دیا ہے ۔۔۔۔۔بلکل یہ بہت بڑا کارنامہ ہی تو ہے
کیونکہ آج تک تو خادم اعلی ایسے واقعات کے بعد صرف نوٹس ہی لیتے رہے اور لواحقین کو صرف تسلیاں ہی دیتے رہے پنجاب میں بچوں اور بچیوں کے ایسے واقعات آئے روز ہوتے ہیں مگر آج تک کبھی کسی کا قاتل یا مجرم پکڑا گیا؟؟؟ نہیں کبھی نہیں ۔

۔۔ آج سے پہلے ایسی پریس ٹاک کرکے کبھی پولیس کو شاباش دینے کی نوبت کیوں نہیں آئی۔۔ کیوں گذشتہ دس سال سے جب سے آپ وزیر اعلی ہیں کبھی نہیں بتایا کہ فلاں کیس تھا یہ مجرم تھا اور پولیس کی شبانہ روز محنت سے پکڑا گیا؟؟ کبھی ایسا ہوا ؟؟؟ کبھی نہیں ۔۔۔تو دس سال میں زینب کے قاتل کو پکڑا جانا واقعی بڑا کارنامہ ہے پہلا کارنامہ ۔۔تالیاں تو بنتی ہیں
اگر خدا ناخواستہ خدا نہ کرے کبھی ایسا واقعہ دوبارہ ہوا ۔

۔تو حکومت کو جھنجوڑنے کے لیے اور پولیس سے کام لینے کے لیے اتنا ہی احتجاج کرنا پڑے گا ۔۔۔ایسے ہی دن رات آواز اٹھا کر دباو ڈالنا پڑے گا۔۔۔پولیس اور حکومت کی جانب سے اتنی ہی تنقید بھی سنی جائے گی تب کہیں جا کر امید رکھی جا سکتی ہے کہ انصاف ہو گا مجرم پکڑا جائے گا ورنہ اس کے بغیر نہ تو حکومت نوٹس لینے کے قابل ہوگی اور نہ ہی پولیس کی طرف سے کسی شنوائی کی توقع رکھی جائے ۔۔۔اور اگر اتنے دباو کے بعد حکومت نے کوئی کارنامہ سر انجام دے دیا تو ہر طرف سے مبارک بادیں تو اسکا حق ہے ہر طرف سے شاباش تو ملے گی ہی۔۔۔یہ انکا احسان نہیں تو اورکیا ہے گذشتہ دس سال میں ایسے مواقع کب دیکھنے کو ملے تو آپ سب کو بھی مبارک ہو اور حکومت کی اس شاندار کارکرگی پر تالیاں تو بنتی ہیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :