دلاسے اور فوٹو سیشن

جمعرات 20 مارچ 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

ہمارے معاشرے میں انسان کو جیتے جی وہ قدروقیمت نہیں ملتی جو اُسے مرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی اگر چہ محض دلاسوں اور دکھاووٴں سے کام لیا جاتا ہے مگر زندگی کی نسبت مرنے کے بعدعزت میں قدرے اضافہ ضرور ہوتا ہے جبکہ اُسکی زندگی میں پائے جانے والے دشمن اور پرائے بھی بغیر کسی حیل و حجت مرنے کے بعد اُسکے غم خوار وہمدرد بن جاتے ہیں۔

انسان کی بے توقیری کا یہ سلسلہ اُسکی زندگی سے شروع ہو کر نزع کے عالم تک اُسکے ساتھ جاتا ہے۔اُسکے بعد پھر کرم فرمائی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔انسانی زندگی میں ایذا رسانی کا یہ سلسلہ حکومتی سطح پر بہ احسن طریق نبھایا جاتا ہے۔ اُسے تکلیف و اذیت سے نوازنے کے 101 طریقے سرکار کے پاس ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں جنہیں سرکار وقت بہ وقت ضرور استعمال کرتی ہے۔

(جاری ہے)

ریاستی حدود و قوانین میں حکومتی نااہلی اور غفلت کے سبب حادثات کا شکار ہوتے انسان کی عظمت کیلئے سرکار کی جانب سے ہمدردی پر مبنی چند رسمی جملے ،دلاسے اورفوٹو سیشن کے بعد انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جو خوش قسمتی سے گر مل جائیں تو پسماندگان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔۔۔ایسی قدرو منزلت، دعائے مغفرت اور سرکار سے نوازشات اور انعام و اکرام کیلئے انسان کا مرنا ضروری امر ہے بصورت دیگر تکلیف آپکا مقدر۔

۔۔!!
سندھ کے علاقے تھرپارکر میں حکمرانوں کی شرمناک غفلت سے غذائی قلت کا شکار ہو کر نمونیا،بخار، دست و قے ، خو ن کی کمی اور ہیپاٹائٹس جیسے موضی مرض کے باعث سینکڑوں بچے ہلاک جبکہ ہزاروں اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ حکومت پاکستان اور ملکی و غیر ملکی سماجی تنظیموں کی جانب سے امدادکے باوجود متاثرین کی حالت تاحال ابتر ہے کیونکہ برسوں پلی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے میں رُونما ہوتے حادثات پر دنوں میں قابو پانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

بقول شاعر۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے ایک دم نہیں ہوتے۔!
ستم ظریفی دیکھیے عوام سے بے خبر سندھ حکومت کو میڈیا پر خبر چلنے کے بعد ہوش آتا ہے کہ تھر کے ریگستان میں بھوک اورپیاس سے بلکتی اورمرتی عوام بھی شائد انکی رعایا میں سے ہے جبکہ وزیر اعلی سندھ کی تو درویشی کایہ عالم ہے کہ صوبے میں جب عوامی معاملات حد سے بڑھنے لگتے ہیں تو اُنہیں باقائدہ جگایا جاتا ہے،اس بار بھی سائیں خواب خرگوش میں ہی تھے کہ متاثرین قحط نے انکی نیند میں خلل ڈال دیا،جس کے بعد سائیں نے متاثرین کی خبر گیری کیلئے وہی روائتی جملے دہرائے جیسا پاکستان کا ہر سیاستدان ایسے مواقعوں پر ادا کرتا ہے، یعنی چند دلاسے، نام نہاد امداد کا علان،تحقیقاتی کمیٹی کا قیام، فوٹو سیشن اور بس۔

۔۔یہ ہوتا ہے عوام کو بہلانے کاحکمرانوں کا ابتدائی طریقہ واردات جو کہ میڈیا اور عوام کے دباوٴ کو تھوڑ کم کرنے کیلئے ہر سیاستدان ایسے مواقعوں پر استعمال کرتا ہے ۔۔۔اس طرح سے کچھ وقت گزرتا ہے تو معاملات کی لو تھوڑی سرد پڑتی ہے اور ایک نیا حادثہ رُونما ہوجاتا ہے جو عوامی سوچ کو ایک نئے حصار میں ڈال دیتا ہے۔۔نئے حادثے پر عوامی حرارت کم کرنے کیلئے پھر وہی روائتی دلاسے اور فوٹوسیشن۔

۔آج مجھے ملک بھر کے لیڈٰنگ اخبارات کے فرنٹ اور بیک پیج پر کوئی ایک خبر بھی ایسی پڑھنے کو نہیں ملی جو قحط متاثرین سے متعلق ہو ۔اب آپ اسے حادثے کی اہمیت کہیے یا روز نئی خبروں کی بھر مار کہ ایک کے بعد دوسرا واقعہ خواہ وہ کتنی ہی بڑی نوعیت کا کیوں نہ ہو حکمرانوں کی توجہ اور عوام کی ہمدردیاں چند دن ہی سمیٹ سکتا ہے، کیونکہ ایک حادثے کے زخم ابھی بھرنے نہیں پاتے دوسر احادثہ رُونما ہوجاتا ہے یا خود سے کرا دیا جاتا ہے، جیسا کہ لاڑکانہ میں ہندو مسلم فساد سے لوگوں کی توجہ سانحہ تھر سے دوسری جانب مبذول ہوگئی ہے۔

یوں حکمرانوں کی جان بخشی ہوتی رہتی ہے اور ایسے تسلسل سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکمران حادثے کے اسباب، محرکات اور انکا سد باب کرنے کی بجائے چند دلاسے اور تھوڑی بہت امداد پر ایسے حساس نوعیت کے معاملات کو رفع دفع کر دیتے ہیں،اسکی ایک بڑی وجہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک رُونما ہونے والے حادثات و واقعات کو غیر سنجیدہ اور سطحی انداز سے حل کرنا بھی ہے جسکی وجہ سے آج ملک حادثات کی آماجگاہ بن گیاہے اور ہر شخص حادثہ حادثہ کھیل رہا ہے۔


بد قسمتی سے پاکستان کو مون سون بارشوں کی وجہ سے ہر سال سیلاب کا بھی سامنا رہتا ہے جس کے نتیجے میں انسانی جانوں کا ضیاع، فصلو ں کی بربادی، سینکڑوں دیہاتوں کی تباہی اور قومی معیشت کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ملکی تاریخ میں1950سے2012تک آنے والے20 سیلابوں کے نتیجے میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔فیدرل فلڈ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق1950سے2012تک آنے والے 20سیلابوں کے نتیجے میں ملک میں 11239ہلاکتیں،180234دیہات متاثر جبکہ ان63سالوں کے دوران ملکی معیشت کو39ارب روپے کادھچکا لگا۔

۔دوسری جانب1974سے2013تک ملک میں آنے زلزلوں کے نتیجے میں سوا لاکھ کے قریب ہلاکتیں،لاکھوں زخمی اور ہزاروں گھر تباہ و برباد ہوئے ہیں۔ ان تباہ کُن حالات کے باوجود حکومت کی جانب سے سیلاب و زلزلے کی تباہ کاریوں کی روک تھام یا کم سے کم نقصان کیلئے مربوط لائحہ عمل اور خاطر خواہ پلاننگ بھی آج تک عمل میں نہیں لائی گئی۔اسکی ایک اور وجہ حکمرانوں کی حد درجہ بے حسی ہے جسکا اندازہ اُنکی ترجیحات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

انکے کے یہاں انسانوں سے زیادہ پالتو کتوں اور جانوروں سے اچھا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔انسان کی خبرگیری کی بجائے جانوروں کو لڑانے اور نچانے پر زیادہ فخر کیا جاتاہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے بر عکس ثقافت و تہذیب کے نام پر عیاشی میں اربوں روپے جھونکے جاتے ہیں۔پھر یہیں بس نہیں ہوتا۔۔۔ زندہ انسان سے سُکھ چھیننے کیلئے سرکار مختلف کمیٹیاں بھی شکیل دیتی ہے جس میں بجلی،اشیائے خوردو نوش، گیس، پیٹرولیم، پانی، صحت اور تعلیم سر فہرست ہیں۔

ان کمیٹیوں کے اجلاس میں انسان کو اُسکی زندگی میں ہر شے ذروں اور قطروں کی شکل میں مہیا کرنے کی باقائدہ پلاننگ کی جاتی ہے، جس کے بعد بجلی و گیس کے نرخ میں اضافے اور تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کی سفارشات کی جاتی ہیں جو بعد میں ایک آرڈینینس کی شکل میں عوام پر ایک بم بن کر گرتی ہیں۔پھران حکومتی نوازشات پر اگر کوئی شخص اپنے حق کے سلسلے میں خودسوزی کرتا ہے یاکوئی ماں غربت سے تنگ آکر اپنے بچوں کو مار دیتی ہے تویہ حکمران ایسے واقعات و حادثات کی روک تھام کی بجائے نام نہاد دلاسوں اور بہلاووٴں سے خلق خدا کی داد رسی کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور انکے ساتھ فوٹوسیشن کروا کراُنکا مذیدمذاق اُڑاتے ہیں۔


انسانیت کا احترام ،محبت ، روادری ، بھائی چارگی اور حسن سلوک انسانی زندگی سے ہی وابسطہ ہے ۔مرنے کے بعد ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ۔مرنے کے بعد اگر کچھ باقی بچتا ہے تو وہ انسانی زندگی میں اُن سے روا رکھا گیا سُلوک یا انسانیت کی فلاح و بہبود اور بقا کیلئے اُٹھائے جانے والے اقدام ہیں۔لہذا گھر کے فرد سے لیکر حکمرانوں تک سبھی کو زندگی میں ہی اہمیت و توجہ کی ضرورت ہے۔مرنے کے بعد جھوٹے دلاسے، ہمدردی اور جانے والے کی یاد کے سوا باقی کچھ نہیں بچتا۔
چلو کچھ دنوں کے لئے دنیا چھوڑ دیتے ہیں فراز !
سُنا ہے لوگ بہت یاد کرتے ہیں چلے جانے کے بعد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :