اماں کی سلائی مشین ‎

اتوار 21 فروری 2021

Zahid Yaqub Aamir

زاہد یعقوب عامر

ماؤں کی اس دولت و متاع جس  کو وہ ہمیشہ سنبھالتی ہیں اس میں ایک سلائ مشین بھی ہوتی ہے. نسل نو کو اس بات کا اندازہ نہ ہو پائے گا مگر ہم جس دور سے گزرے ہیں سلائ مشین ہر گھر میں موجود ہوتی تھی, کونے میں پڑی ہوتی تھی اور اس پر کپڑا اوڑھا دیا جاتا تھا. اسے تیل دینے کے لئے "کُپی" بھی مشین کے اندر یا الگ سے موجود ہوتی تھی. مائیں ان مشینوں کی مسلسل صفائی کرتی تھیں.

اس کو تیل کے ساتھ رواں رکھا جاتا تھا. مجھے یقین ہے کہ سلائ مشین سے ہر شخص کی یادیں جڑی ہیں. بچپن میں راہ چلتے کپڑے پھاڑ, ادھیڑ لینا تو عام سی بات ہوتی تھی. آسن, نیفا, بغل, پائنچہ تو بس ایسے ہی ادھڑ جاتا تھا. اماں بڑے چاؤ سے اسے سی دیتی تھیں. البتہ کبھی کبھار ہی یہ کہتے بھی سنا گیا کہ "اس کے تو جسم پر کانٹے لگے ابھرے ہوئے ہیں"۔

(جاری ہے)


ادھڑے کپڑوں کی سلائ اور سلائ شدہ پرانے کپڑوں سے کوئ تھیلا, بستہ, چھوٹی ٹیبل کا کور بنانا ہو تو مشین کے اوپر پڑا ہوا کپڑا ہٹایا جاتا اور اس مشین کی رونمائی ہوتی۔
مشین چلتے چلتے دھاگہ توڑ دیتی تھی۔ اماں اکثر مجھے بلاتی تھیں۔ انگلی کو زبان سے مس کیا جاتا, دھاگے کو انگلیوں کے بیچ دبا کر گیلا کیا جاتا اور پھر اس کے سرے کو مشین کی سوئ میں ڈالا جاتا اور مشین پھر چلنے لگتی۔ کتنی ہی بیٹیوں نے اماں کے پاس بیٹھ کر کترن سمیٹی, رنگ برنگے کپڑے اکٹھے کئے اور سلائ کرتی ماؤں کو بغور دیکھا ہے.


یہ مشینیں ماضی ہو گئ ہیں. پچاس سال قبل امی کے جہیز کی سلیقہ سلائ مشین آج بھی ہمارے گھر میں موجود ہے. ہم نے اس کے چرخے کو بلاوجہ گھمانے, سوئ اوپر نیچے اٹھانے سے لیکر, کُپی کے ساتھ لبریکینٹ,آئل لگانا , مشین کے خانے میں رکھی "انچی ٹیپ" سے اپنے پیر اور قد ماپنا تک کارنامے سرانجام دیے ہیں. میں نے اسی لئے کہا تھا کہ یہ مشین بہت سے لوگوں کا ماضی ہیں.

گلی محلے, رشتہ داروں کے کپڑوں کی تراش خراش, سلائ اور ماڈفیکیشن تک والدہ کے احساس پروگرام کا حصہ ہوتی تھی. مائیں اپنی بیٹی کو سلائ مشین لازمی جہیز میں دیتی تھیں. سلائ کڑھائ بنیادی ہنر تھے. مائیں اپنی بیٹیوں کو لازمی سکھاتی تھیں. یہی ہنر بہت سے چولھے جلنے کی وجہ بھی تھا. اسی ہنر نے بہت سی بیٹیوں کو معاشی آہوں اور اقتصادی کراہوں سے بچایا.


 ایک کپڑا سالوں پہنا جاتا تھا. پیوند کاری کی جاتی تھی. آج ڈسپوزایبل کپڑوں نے سلائ, مرمت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے. آپ اپنے گھر تلاش کیجئے گا. کسی سٹور میں رکھی سلائ مشین ضرور ملے گی. وہی سلائ مشین جس پر اپنی امی کو جوانی کے دنوں ہمارے بچپن کے پھٹے کپڑے مرمت کرتے دیکھا ہو گا. جس کی سوئ میں دھاگہ ڈالنے کے لئے اماں کی مدد کی ہو گی. یہ وہی مشین ہو گی جو اماں کی اماں نے بہت چاؤ سے اپنی بیٹی کو جہیز میں دی ہوگی یا شادی کے ابتدائی ایام اماں نے جیب خرچ سے خود خریدی ہو گی.

یہ مشین یقیناً کسی سٹور میں ہو گی. اماں نے تو کبھی اسے اتنا میلا نہیں ہونے دیا ہو گا. اس کی خستہ حالی نہیں ہونے دی ہو گی. اسے ہمیشہ  صاف شفاف رکھا ہو گا.
آج ہماری وارڈروب, الماریوں میں سینکڑوں کپڑے ہیں. ہمارے کپڑوں کو سلائ, مرمت کی ضرورت نہیں رہی. ہم سمجھتے ہیں یہ غیر اہم سی چیز , یہ مشین اب کس کام کی رہی؟ حالانکہ یہ ہم سب کے گذشتہ سے پیوستہ ہے.

اگر یہ مشین آپ کے گھر میں موجود ہے تو اسے صاف کر کے اسی جگہ سجا دیں جہاں اماں اسے بہت اہتمام سے رکھتی تھیں. اسے صاف کریں. ماں سلامت ہے تو اسے اس کی یادوں کا تحفہ واپس دیں. اس کی جوانی کی سب سے خوبصورت مشین واپس کریں. اس مشین کو کباڑی کو بیچنے سے چند سو روپے ہی ملیں گے مگر آپ اپنے ماضی کا کھلونا کھو دیں گے. یادیں بیچ ڈالیں گے. یہ کھلونا کوئ واپس نہیں لا کر دے گا.

اس کھلونے پر آپ اور آپ کی والدہ محترمہ کی ہتھیلیاں چسپاں ہیں. یادوں کی کڑھائی کی گئ ہے. محبت اور انسیت کی بیلیں بنائ گئ ہیں.  یاد رکھیں, ہر مہنگی چیز خوشی کا سبب نہیں ہو سکتی. کبھی کبھار پرانی چیزیں بھی ہماری زندگی میں کچھ نیا پن لا سکتی ہیں. ہمیں ماضی کی ہوا کےجھونکے میں چند لمحے آنکھیں موند کر سلائ کرتی اماں دکھا سکتی ہیں. وہی اماں جو ہمارے نالائق آرام, سکون اور اطمینان کے لئے بے آرامی, بے سکونی پسند کرتی تھیں.. وہ اماں جو سلائ مشین چلاتے چلاتے سر اوپر اٹھا کر ہلکا سا مسکراتی تھیں یا کسی غلطی پر غصے بھری نظروں سے گھورتی تھیں. یقین مانیں, مشین دونوں صورتوں میں کبھی نہیں رکتی تھی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :