رشیدہ منہاس سے راشد منہاس تک

پیر 13 دسمبر 2021

Zahid Yaqub Aamir

زاہد یعقوب عامر

عظیم مائیں ہی, عظیم بیٹوں کو جنم دیتی ہیں. راشد منہاس کی والدہ محترمہ رشیدہ بیگم انتقال کر گئ ہیں.  وہی ماں جو راشد منہاس کی شہادت کے وقت گھر میں اس کی پسند کا کھانا بنا کر اس کا انتظار کر رہی تھیں. آج ماں بیٹا آپس میں آن ملے ہیں. ماں نے بیٹے کو ملنے کے لیے پچاس سال انتظار کیا. اس ماں کے پچاس سال کیسے گزرے وہ تمام لوگ جانتے ہیں جو راشدہ بیگم کے قریب رہے ہیں.

وہ واقعی بلند حوصلہ ماں تھیں. وہ شہید راشد منہاس کی یادوں سے جڑی وہ ماں تھیں جن کے لئے دوسرے بچے بھی نہائت اہم تھے مگر راشد سب سے منفرد تھا. تین بڑی بہنوں کے بعد پیدا ہونے والا راشد بہنوں اور ماں کی آنکھ کا تارہ تھا. والد محترم عبدالمجید منہاس ملٹری انجیئرنگ سروسز میں تھے اور پیشہ ورانہ مصروفیات میں مگن رہتے. والدہ ہی تمام بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کوشاں رہتیں.

والدہ کی شفقت راشد کے حصے میں اس طرح آئ کہ وہ شہادت پا گیا مگر ماں کے سب سے قریب رہا. راشد سے وابستہ ہر چیز, ہر انسان ان کے لئے اولین تھا. سب سے بڑی ترجیح تھا. آج راشد کے پاس ہوں گیں, دونوں ماں بیٹا آپس میں خوب باتیں, گلے شکوے کر رہے ہوں گے.
راشد منہاس رسال پور کی تربیت کے بعد کراچی آئے تو ماں نے نہائت اطمینان محسوس کیا. وہ کبھی گھر سے دور نہیں رہا تھا.

راشد کے انداز و اطوار بالکل مختلف تھے. وہ ہمیشہ سے محنتی تھا مگر اس میں بڑوں کی طرح گفتگو اور رویے کی جھلک تھی. ماؤں کو ہمیشہ بچے کم سن اور چھوٹے ہی محسوس ہوتے ہیں. مگر انہوں نے پہلی مرتبہ راشد کو بڑا بنتے, بڑا ہوتے اور بڑی بڑی باتیں کرتے سنا. وہ اپنی زندگی کا ہر راز اپنی ماں سے شئر کرنے کے عادی تھے. ماں کی سماعتیں بھی اپنے بیٹے کی باتوں کو سننے پر تسکین محسوس کرتی تھیں.


میں ایک روز اپنی اہلیہ کے ہمراہ راشد منہاس شہید کی والدہ محترمہ, راشدہ بیگم صاحبہ سے ملنے گیا تو وہ بیمار تھیں اور بستر پر دراز تھیں. گفتگو کرنے میں شدید دقت تھی. انجم منہاس بھائ نے والدہ کو کہا کہ اماں... راشد کے بیس سے زاہد آپ سے ملنے آئے ہیں. میں ان سے کئ سال قبل جب ملا تھا تو وہ صحت مند اور خوش گوار انداز میں گفتگو کرتی رہیں. اس بار تکلیف میں تھیں.

مگر اپنی نرس کو کہا کہ یہ میرے راشد کے ائر فورس بیس سے آئے ہیں انہیں کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دینا. مجھ سے اصرار کیا کہ اگلی مرتبہ میں اپنی بیٹیوں کو ساتھ بھی ہمراہ لاؤں. نوے, اکانوے سال کی عمر میں بھی راشد ہی ان کے دل کا ٹکڑا, سکون کا سبب اور ممتا نچھاور کرنے کے قابل ہستی تھیں. راشد سے وابستہ ہر شخص سے محبت کرتی رہیں. راشد کی ائر فورس سے آئے بیٹے میں اپنا راشد ڈھونڈتی رہیں.

جب چل پھر سکتی تھیں تو  ان کی وردی میں آویزاں تصویر کو دن میں کئ کئ مرتبہ صاف کرتیں. دیکھتیں اور شہید بیٹے کو محسوس کرتیں.
راشد منہاس کے کورس میٹس ویسے تو اس خاندان کے بہت قریب تھے. ان کے ہی کورس میٹ ائر چیف مارشل کلیم سعادت, چیف آف دی ائر سٹاف بنے. گزشتہ کئ سالوں سے تقریباً ہر ائر چیف ان کے گھر جانا اور اس عظیم ماں کی قدم بوسی کو اپنا فرض سمجھتا ہے.

آپ کو انٹرنیٹ پر ایسی متعدد تصاویر نظر آئیں گیں جہاں یہ عظیم ماں دوسروں سے اپنے راشد کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتی نظر آئیں گیں. راشد سے محبت کرنے والوں سے مل کر خوشی ان کے چہرے سے پھوٹتی تھی. نوے سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لاغر ہو گئ تھیں. ہم نے چند سال قبل تک انہیں ہمیشہ باوقار, وضعدار دیکھا. چہرے پر شہید بیٹے کی ماں ہونے کی چمک ہمیشہ رہی.

اطمینان رہا. یہ بلاشبہ وہ ماں ہے جس نے اپنا حق نبھا دیا.  زندہ رہیں تو دھرتی ماں پر بیٹا وار کر زندہ رہیں.. انتقال ہوا تو اطمینان کے ساتھ چار نسلوں کی خوشیاں دیکھ کر رخصت ہوئیں.
ایک گذشتہ ملاقات میں بتایا کہ میں راشد منہاس کی شہادت کے روز پریشان تھی کہ اس کا فون نہیں آیا. راشد ماڑی پور (مسرور) ائر بیس کراچی کے نمبر 2 اسکواڈرن میں تعینات تھے.

ان کا معمول تھا کہ وہ لازمی روزانہ فون کرتے تھے. آج ان کا فون نہیں آیا تھا.  والدہ نے اپنی بے چینی کا ذکر ان کے والد محترم سے کیا. والد صاحب نے کہا کہ کہیں مصروف ہوں گے. رات پریشانی میں گزری. ان کے دوستوں نے بھی کچھ نہ بتایا. ماں کے دل سے جڑی پریشانی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے. وہ برداشت بھی کررہی تھیں مگر چبھن کا احساس تھا. کچھ مختلف ہو چکا تھا.

انہیں خبر ملی کہ ائرفورس کے لوگ ان کے گھر آ رہے ہیں. وہ اس صورتحال سے مزید پریشان تھیں. بیٹے کی شہادت کا معلوم ہوا ,سب نے سلامی پیش کی. دل کٹا, آنسو بہے, تکلیف کا سمندر تھا مگر پھر وقت نے انہیں سنبھالا دیا. وہ سب جو سمجھتے تھے کہ ماں کو کیسے سکون ملے گا انہوں نے دنیا کی سب سے پرسکون ماں کو دیکھا. نو دہائیوں تک دوسروں کا احساس کرتے دیکھا.

انہوں نے بخوبی دیکھا کہ راشد منہاس کو بہادر بیٹا بنانے والی ماں کا حوصلہ کیسا تھا. پھر نہ آنکھ سے اشک رواں ،نہ ہونٹوں اور ہاتھوں پر لرزہ ،نہ سینہ کوبی کی. بس اپنے بیٹے کو یاد کیا. اسے دوسروں میں ڈھونڈا. اس کا ذکر سن کر اطمینان سمیٹا.
سترہ فروری 1951 کو رشیدہ بیگم کے ہاں راشد منہاس کی ولادت ہوئ. راشد منہاس پی اے ایف بیس فیصل کے ہسپتال میں پیدا ہوئے.

والد صاحب نے کہا کہ "رشیدہ بیگم, میں اپنے پہلے بیٹے کا نام تم سے ملتا جلتا رکھوں گا. "انہوں نے راشد کو تمام عمر ماں اور ماں کو بیٹے کے نام سے جوڑ دیا. آج بھی دنیا کے لیے تو وہ اپنی آنکھیں موند گئیں مگر راشد اور رشیدہ اکھٹے ہیں. نشان حیدر کے اعزاز سے ممتاز ہونے والا سب سے کم عمر ہیرو, آج آگے بڑھ کر ماں کو خوش آمدید کہے گا.
راشدمنہاس نے لوئر ٹوپہ کے بعد رسالپور کی فلائنگ کی تربیت مکمل کی اور اس کے بعد پی اے ایف بیس مسرور (ماڑی پور) میں اپنی پیشہ تربیت کے لئے پہنچے.


یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا چرچا تھا, حالات دگرگوں اور سنگین تھے. بنگالی افسر واپس جانا چاہتے تھے. ان کی ہمدردیاں اپنے خطے کے لیے تھیں. انہیں واپس جانے کے لیے قانونی لحاظ سے روکا نہیں جاسکتا تھا مگر اس وقت تک تقسیم کے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے. پاکستان کے دو ٹکڑوں کا زخم کسی دل کے لئے بھی قابل قبول نہ تھا. پاکستان کے استحکام اور حفاظت کے لئے ہر پاکستانی تشویش اور دکھ و کرب کا شکار تھا.

مشرقی پاکستان میں جو مجموعی پاکستان کی بات کرتا وہ مجرم ٹھہرتا, مغربی پاکستان میں ہر سچے پاکستانی کے لئے تکلیف اور تشویش بڑھ رہی تھی.
اگست 1971 یعنی مشرقی پاکستان کے سانحہ سے محض چار ماہ قبل کے ان حالات میں فلائیٹ لیفٹیننٹ مطیح الرحمٰن نے ایک چال چلی. وہ پاک فضائیہ کے ائر بیس پر فلائیٹ سیفٹی افسر تھا. اس نے طیارے کو پائلٹ سمیت بھارت لیجانے کا منصوبہ بنایا.

اس نے وہ وقت چنا جس میں راشد منہاس کی پہلی سولو فلائٹ یعنی اکیلے, خودمختار فلائیٹ تھی. ماں منتظر تھیں کہ راشد اپنی پہلی سولو فلائٹ کے بعد گھر آئے گا. اس کی پسند کا کھانا تیار تھا. والد محترم اسے مسرور بیس سے واپس گھر لانے کے لئے منتظر تھے راشد منہاس انہیں کال کر دیں. والدہ محترمہ نے اپنے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا کہ اس روز میرا دل بہت بے چین تھا.

انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ منفرد ہونے والا ہے.
راشد منہاس نے عسکری تاریخ کا ایک منفرد کارنامہ سر انجام دیا. ان کے فلائیٹ سیفٹی آفیسر مطیح الرحمٰن نے ٹیکسی ٹریک پر جہاز میں کسی ممکنہ ہنگامی صورتحال کا اشارہ کیا. زیر تربیت (ٹرینی) پائلٹ آفیسر نے جہاز روکا. وہ انسٹرکٹر پائلٹ فوراً سوار ہو گیا. ہاتھ میں تھاما کلوروفارم کا رومال راشد کے منہ پر رکھا, مزاحمت کی صورت ہاتھ میں تھامے آہنی اوزار سے وار کیا ,راشد پر کلوروفارم کے سبب بے ہوشی طاری تھی اور لمحوں میں جہاز نیچی پرواز کرتے ٹھٹھہ کی طرف محو پرواز تھا.

اسی دوران راشد منہاس ہوش میں آتے ہیں. حالات کا جائزہ لیا تو عقبی کاک پٹ میں بیٹھا انسٹرکٹر پائلٹ جہاز کا کنٹرول تھامے انہیں موقع نہیں دے رہا تھا. منہ سے نقاہت بھری آواز نکلتی ہے, "بلیو برڈ بی انگ ہائ جیک, بلیو برڈ بی انگ ہائ جیک...."
جہاز کے دوسرے کاک پٹ میں بیٹھا مطیح الرحمان اس جہاز کے تمام فنکشن, عوامل, مہارت سے واقف ہے. وہ جہاز کو کم بلندی پر رکھے ہوئے ہے تاکہ ریڈار پر نہ دیکھا جا سکے.

چند ناٹیکل میل کا فاصلہ اور اس کم سن شہباز کا تاریخی فیصلہ... جہاز کا رخ زمین کی طرف کر دیا جاتا ہے. جہاز میں موجود دشمنِ پاکستان مطیع الرحمان ,اہم نقشے, ہوائ اڈوں اور اسلحہ خانوں کے راز اس شہید وطن کے ساتھ ہی مٹی کی آغوش میں چلے جاتے ہیں.
ممکن ہے یہ جہاز انڈیا سے واپس لے لیا جاتا. مطیع الرحمان بھی بنگلہ دیش چلا جاتا, مگر راشد منہاس کو گوارا نہیں تھا کہ اس کے ملک کا جہاز پاک فضائیہ کے پاس رکھے انڈین نیٹ جہاز کی طرح ان کی "وار ٹرافی" بن جاتا.

دنیا کہتی کہ یہ ہے وہ پاکستانی جہاز جس کے پائلٹ کو جہاز سمیت اغوا کر لیا گیا. یہ ہے وہ کور آل جو اس نے پہنا ہوا تھا... اسے فوجی زبان میں کہا جاتا ہے
"Death before Disgrace"
راشد منہاس اس بات کو نبھا گیا. سبکی و شرمندگی سے قبل موت ہی ہماری شان ہے. یہی ہماری غیرت و حمیت کا تقاضہ ہے. یہی ہے وہ درس جو راشد منہاس آنے والی نسلوں کو پڑھا گیا.
راشد کی تربیت اس آغوش محبت میں ہوئ تھی جس نے بہادر کا درس دیا.

بہادری دکھائی. پچاس سالوں تک بیٹے کا دکھ لئے فخر سے جیتی رہیں.
 نوے سال کی عمر میں بھی راشد ہی ان کے دل کا ٹکڑا, سکون کا سبب اور ممتا نچھاور کرنے کی قابل ہستی تھا. راشد سے وابستہ ہر شخص سے محبت کرتی تھیں. راشد کی ائر فورس سے آئے بیٹے میں اپنا راشد ڈھونڈتی تھیں. راشد تو دھرتی ماں کا بیٹا تھا, وہ دھرتی ماں کی عزت و وقار کا محافظ بن کر اسی دھرتی ماں کی آغوش میں سو گیا. آج ماں بھی وہیں موجود ہیں جہاں بیٹا اپنی ممتا کا منتظر تھا. قوم کے اس کم سن شہید اور بہادر ماں کے لئے سلام عقیدت�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :