
فلائیٹ لیفٹیننٹ عمر شہزاد شہید (تمغہ بسالت)
ہفتہ 25 ستمبر 2021

زاہد یعقوب عامر
لہو کا رشتہ زمین سے رکھنا
اس بہشت بریں سے رکھنا
24ستمبر ،گزشتہ سال ...اچانک ٹی وی پر عمر شہزاد کی شہادت کی خبر نمودار ہوتی ہے. پاک فضائیہ ،ارض پاک کے ہر فرد کے لیے تو یہ تکلیف دہ خبر تھی..مگر میری بھیگی آنکھوں کےسامنے واقعات کا ایک تسلسل تھا..عمر شہزاد کی زندگی کے انمول واقعات..عمر شہزاد کی کامیابیوں کا سفر.
میں نے عمر کو ایک سکول کے ننھے طالبعلم سے لیکر رسالپور اکیڈمی کےایک سفید یونیفارم سے اکیڈمی انڈر آفیسر تک دیکھا. عمر کی ذات بہت مختلف تھی.ملنسار، سمجھدار، احساس کی دولت سے مالامال. کسی بھی ملٹری اکیڈمی کا سینئر موسٹ کیڈٹ اکیڈمی انڈر آفیسر کہلاتا ہے. اسکا انتخاب مجموعی طور پر اسکی تعلیمی کارکردگی، عسکری مہارت، نظم و ضبط کی پابندی اور جسمانی صلاحیتوں کی بنیاد پہ کیا جاتا ہے. اسے دوسرے کیڈٹس کے لیے ایک رول ماڈل بننا ہوتا ہے. وہ پوری اکیڈمی کے سینکڑوں کیڈٹس کے انتظامی امور سنبھالتا ہے.عمر شہزاد نے اسے خوب نبھایا. اسے بطور کیڈٹ اپنے انسٹرکٹرز کے اعتماد پہ پورا اترنا بخوبی آتا تھا.
ایک مرتبہ شارٹ کورس کےجونئر موسٹ کیڈٹس کو کسی غلطی کے باعث سزا کا سامنا کرنا پڑا. اسی دوران انکی کلاسز کا وقت ضائع ہوگیا.میں بطور پراگرس اینڈ ٹریننگ کنٹرول آفیسر ذمہ دار تھا کہ کیڈٹس کی تعلیمی سرگرمیاں بروقت شروع اور اختتام پذیر ہوں.ایسے میں میں نے اکیڈمی انڈر آفیسر کو پیغام بھیجا کہ آپ اس واقعہ کو ذاتی طور پر دیکھیں اور انکی تعلیمی سرگرمیوں کا حرج نہ ہو. میں چھٹی کے کچھ وقت بعد اپنے آفس میں ہی موجود تھا کہ عمر میرے آفس پہنچا. وہ فلائیننگ ونگ سے اپنی مشکل ٹریننگ کے بعد میرے سامنے موجود تھا. یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کیڈٹس اپنے کمروں میں تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہیں. عمر اگر نہ بھی آتا تو میرے احکامات یا پیغام اس نوعیت کا نہ تھا کہ اسے فوری پہنچنا تھا. مگر اسکا تو خمیر ہی سچائ اور ایمانداری کی مٹی سے اٹھا تھا.اسے اعتماد پہ پورا اترنا آتا تھا. اسکا پہلا جواب یہی تھا کہ سر..ان کیڈٹس کے تعلیمی نقصان اور تربیتی سرگرمیوں پر کوئ سمجھوتا نہیں.اور پھر واقعی وہ کبھی لیٹ نہ ہوئے.
اکیڈمی کی ٹریننگ کے دوران ایک مرتبہ ایک مشکل صورتحال کاسامنا تھا. کچھ کیڈٹس اکیڈیمکس میں مشکل کا شکار تھے.انکو ساتھی کیڈٹس کے ساتھ رکھنے کے لیے اضافی توجہ کی ضرورت تھی.مجھے احکامات موصول ہوئے کہ انکے لیے علیحدہ کوچنگ اور توجہ کا اہتمام کیا جائے. میں نے جہاں ان کیڈٹس کی لسٹ متعلقہ انسٹرکٹرز کو فراہم کی وہیں اکیڈمی انڈر آفیسر عمر شہزاد کو بھی تھما دی. مجھے آج بھی اپنے الفاظ اور عمر کا دمکتا چہرہ یاد ہے. میں نے کہا کہ عمر ان لڑکوں کو اکیڈیمکس کی بنیاد پر یہاں سے جانا نہ پڑے...عمر مسکرایا، بولا سر یہ جانے نہیں یہاں کا حصہ بننے آئے ہیں. میں اس لمحہ بھی عمر کے اس جواب سے چونک گیا تھا. اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ عمر اپنے طور پر رات کے سٹڈی ٹائم میں انکو بذات خود دیکھنے جاتا ہے.
ایک شام رسالپور اکیڈمی آڈیٹوریم میں انٹر سکواڈارن تقریری مقابلے کی فل ڈریس ریہرسل جاری تھی. تمام انسٹرکٹرز اور شمولیت کرنے والے کیڈٹس موجود تھے. ایسے میں اردو مزاحیہ تقریر کے لیے سکواڈرن نمبر 2 کا ایک کیڈٹ سامنے آیا تو تقریر کے کچھ حصوں کو معترض ٹھہراتے ہوئے وہاں موجود سینئر آفیسر( ڈائریکٹر آف سٹڈیز) کی طرف سے اس کیڈٹ کو تقریر کرنے سے منع کردیا گیا. وہ آخری روز تھا. اگلے روز فائینل مقابلہ تھا.چونکہ اردو تقاریر کی تیاری کے لیے میں ذمہ دارتھا اور یہ بہت آسان تھا کہ سٹینڈ بائ مقرر کو منتخب کرلیا جاتا. مگر مجھے مناسب نہ لگا کہ پہلی مرتبہ شمولیت کرنے والے کیڈٹ کی اسطرح حوصلہ شکنی ہو.اسے موقع ملنا چاہیے تھا. مجھے اپنے سینئر سے درخواست گزار ہونا پڑا کہ سر اسکو ایک موقع اوردے دیں. میں آج شام اسکے میس میں سٹڈی ٹائم جاکر اسے خود تقریر لکھ کر دوں گا اوریہ ہی تقریر کرے گا. گروپ کیپٹن جمیل دلشاد کو میری درخواست ماننا پڑی. اور پھر میں اوروہ کیڈٹ عمر شہزاد کےکمرے میں موجود تھے.عمر میرا اس تقریر کی تیاری میں ساتھی تھا.میں نےتقریر لکھی ، چند مرتبہ ریہرسل کرائ ، سکواڈرن نمبر 2 کی سکواڈرن کمانڈر، سکواڈرن لیڈر فرحت کو مطلع کیا اور عمر کے حوالے کرکے چلدیا. مجھے ایک اطمینان اورتسلی تھی... میرے لیے عمر کی طرف سے دی گئ خوداعتمادی کااحساس کافی تھا. اورپھر یہ الفاظ لکھتے ہوئے میرا دل میرے پیارے عمر کی محبت سے سرشار ہےکہ اس اگلے روز منعقدہ مقابلے میں اردو (مزاحیہ ) تقریر میں اسی کیڈٹ نے اول پوزیشن حاصل کی تھی جسے عمر نے تیاری کرائ تھی.عمر کو پڑھائ،تربیتی عمل،ڈرامیٹکس، پریڈ ، فلائینگ، ہرجاہ نمایاں دیکھا. کوئ کیڈٹ اپنے انسٹرکٹرز کو انفرادی طور پر اتنا یاد نہیں رہتا مگر عمر سب کو اسی طرح یاد ہے. حافظے کی تختی پر رقم ہے.
عمر شہزاد فائیٹرپائلٹ بنا.کامیاب تربیت پراسے اعزازی تلوار اور بہترین پائلٹ ٹرافی سے نوازا گیا. وہ پاکستان فضائیہ کے بہترین جہاز اور سکواڈرن کا حصہ تھا.اور پھر 24 ستمبر کی وہ صبح... جب فلائیٹ لیفٹیننٹ عمرشہزاد کا ایف سیون پی جی طیارہ پشاور کے قریب فنی خرابی کا شکار ہوگیا. وہ اسے بحفاظت واپس لانا چاہتا تھا. اسے اس ملک وملت کے قیمتی جہاز کی سلامتی عزیز تھی.. نیچے آبادی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ جہاز کے گرنے سے آبادی کو بھی محفوظ رکھے۔
(جاری ہے)
وہ مسلسل رابظے میں تھا۔ وہ کیا کمال حوصلہ تھا اس نوجوان کا۔ وہ چاہتا تو فورا“ جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا سکتا تھا۔ اور پھر آبادی کو بچانے اور جہاز واپس لانے کی کوشش میں وہ اپنی جان اس دھرتی ماں پر وار گیا...
کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش
یہ ایک جاں کیا ہزار ہوں تو
ہزار تجھ پہ نثار کردوں !!!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
زاہد یعقوب عامر کے کالمز
-
رشیدہ منہاس سے راشد منہاس تک
پیر 13 دسمبر 2021
-
فلائیٹ لیفٹیننٹ عمر شہزاد شہید (تمغہ بسالت)
ہفتہ 25 ستمبر 2021
-
درس شہادت کے فضائی وارث
منگل 7 ستمبر 2021
-
کھیل جیت اورتشدد
پیر 23 اگست 2021
-
راشدمنہاس شہیدنشان حیدرکا 50 واں یوم شہادت
ہفتہ 21 اگست 2021
-
پانی اور رشتےایک جیسےہیں
منگل 10 اگست 2021
-
یہ تو ہیجڑےہیں
جمعہ 25 جون 2021
-
خالی گھونسلےکی بیماری
بدھ 16 جون 2021
زاہد یعقوب عامر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.