درس شہادت کے فضائی وارث

منگل 7 ستمبر 2021

Zahid Yaqub Aamir

زاہد یعقوب عامر

جنگ ستمبر قربانیوں کی داستانوں سے مزین ہے. ہمت و جرات کے انمٹ باب رقم ہوئے. افواج پاکستان کے بہت سے سپوت کام آئے. جنگیں تو پوری دنیا لڑتی ہے. تاریخ میں جنگ اور امن کا دور تبدیل ہوتا رہتا ہے. کہیں یہ وسائل کی جنگ ہے تو کہیں یہ وقار کے تحفظ کی جنگ. اقتدار کی جنگ یا خلفشار کی جنگ. البتہ بقا کی جنگ لڑتی پاکستانی قوم کو جس دشمن کا سامنا ہے وہ عددی لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے.

ہندوستان کے زیادہ تعداد میں سپاہی اور زیادہ مقدار میں ساز و سامان. تکبر اور حقارت. براہمن دہشت گردی کا مسکن اور پاکستان کو مٹانے کا ون پوائنٹ ایجنڈا.
جنگ ستمبر 1965 کا تاریخ ساز موقع تھا.

(جاری ہے)

یکم ستمبر کو چھمب جوڑیاں سیکٹر پر خبر ملی کہ بھارتی فضائیہ کے چار ویمپائر جہاز پاکستانی حدود پار کر چکے ہیں. طاقت اور عددی برتری کا زعم عروج پر ہے.

ایسے میں سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی اور فلائیٹ لیفٹینٹ امتیاز بھٹی ان چار جہازوں کا مقابلہ کرنے پہنچتے ہیں. آن کی آن میں یہ چاروں جہاز ملبہ بن جاتے ہیں. خاک و خون کا ڈھیر بن جاتے ہیں. ہندوستانی فضائیہ کو لگا کہ یہ ویمپائر جہاز جنگ کے قابل نہیں ہیں. ان جہازوں کو جنگ سے ہٹا دیا جاتا ہے. یہی وہ عددی برتری تھی جو دشمن کے ایک بہت بڑے فلیٹ کو جنگ سے خوف زدہ کرنے کا باعث بنی.


سرفراز احمد رفیقی وہ بہادر ہواباز ہیں جن کو جرأت و شجاعت وراثت میں ملی تھی. 1951 میں ان کے بڑے بھائی, اعجاز احمد رفیقی بطور پاک فضائیہ پائلٹ شہید ہوئے تھے. اسی برس سرفراز رفیقی نے پاک فضائیہ کو بطور پائلٹ جوائن کیا. اس ماں کے حوصلے کو دیکھیں جس کا ایک بیٹا قربان ہوا تو دوسرے کو پھولوں کے ہار پہنا کر سوئے مقتل روانہ کیا. سرفراز رفیقی سرگودھا ائر بیس پر تعینات تھے.

ان کا بطور فارمیشن لیڈر تجربہ اور جذبہ باکمال تھا. سرفراز رفیقی, یونس حسن, سیسل چوہدری, ایم ایم عالم ایک ہی بیس پر ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے. اردگرد ہمت و استقلال کی فضا تھی. بہادری کے درس اور مدرس تھے. سب ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے تھے.
چھ ستمبر 1965 کو دشمن کے تین مقامات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا. مشن ترتیب دیا گیا.

ایک فارمیشن سرفراز احمد رفیقی کی قیادت میں جاتی اور دوسری ایم ایم عالم لیڈ کرتے. تیسری فارمیشن پشاور سے سکواڈرن لیڈر سجاد حیدر کی قیادت اپنا باب شجاعت رقم کرنے والے تھے. یہ فارمیشن پٹھان کوٹ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئ تھی.
چھ ستمبر کے اس معرکے میں بھارتی فضائیہ کے تین اہم مستقروں پر حملہ کیا گیا. سرفراز رفیقی, یونس حسن وطن عزیز پر اپنی جان وار گئے.

وہ واپس نہ لوٹ پائے تھے. یونس حسن جب سرفراز رفیقی کے ہمراہ جنگ کے لیے روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنے نومولود بچے کو نہیں دیکھا تھا. رفیقی بولے کہ یونس حسن اگر آپ چاہیں تو رک جائیں اور اپنے بیٹے کو مل آئیں. فلائیٹ لیفٹینٹ یونس اپنی آنکھوں میں اپنے نومولود بچے کی چشم تصور سے بنائ تصویر لئے ہلواڑہ کے میدان کارزار میں پاکستان پر اپنی جان وار گئے.

وہ واپس نہ آ سکے. ان کے دونوں بیٹوں نے پاک فضائیہ کو ہی اپنا مقصد حیات سمجھا. ان کے ایک بیٹے ائر کموڈور جب کہ دوسرے ائر وائس مارشل کے عہدے تک پہنچے. شہادتوں کا یہ سفر ائر چیف مارشل مصحف علی میر تک آن پہنچا. فلائیٹ لیفٹینٹ یونس حسن مصحف علی میر شہید کے بہنوئی تھے.
چلیں ایک اور فضائ شہید کا تذکرہ کرتے ہیں. فلائنگ آفیسر محمد افضل شہید کلائ کنڈا کے مقام پر شہید ہوئے.

یہ فارمیشن ڈھاکا ائر بیس سے کلائ کنڈا پر حملہ کے لئے روانہ ہوئ تھی. سکواڈرن لیڈر شبیر حسین سید کی قیادت میں جانے والے ان جان بازوں نے دشمن کے زمین پر کھڑے چودہ جہاز تباہ کر دیے. پہلے کامیاب حملے کے بعد جب دوسری بار حملہ کیا گیا تو فلائنگ آفیسر افضل دشمن کی ائر ڈیفینس گنوں کا نشانہ بن گئے. فلائنگ آفیسر افضل کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور جنرل عبدالعزیز ( سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی) کے بڑے بھائی تھے.

قربانی و شجاعت کی ایک اور داستاں کے کردار ائر مارشل ارشد چوہدری بھی ہیں جن کے دو بھائی بطور پاک فضائیہ کے پائلٹ شہید ہوئے. ائر مارشل قیصر اور ائر کموڈور طارق کے بھائ بطور پائلٹ شہید ہوئے.
چلیں شہادت کے سفر پر روانہ ہونے والے سکواڈرن لیڈر منیر الدین کا ذکر کرتے ہیں. منیر الدین پاک فضائیہ میں "پا منیر" کے نام سے مشہور تھے. سادہ طبع انسان, جذبہ خدمت سے سرشار.

ان کی زبان میں معمولی سی لکنت تھی. وہ جہازوں کی فارمیشن میں بطور لیڈر اس لئے نہ جا پاتے تھے کہ لیڈر کے لئے کمانڈ اور صاف رابطہ بہت اہم ہوتا ہے. بھارتی شہر امرتسر کا ریڈار پاک فضائیہ کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا. ریڈار جہازوں کو دیکھنے کے لیے مانند آنکھ ہوتا ہے. اس ہندوستانی آنکھ سے چھٹکارا لازمی تھا. پاک فضائیہ کی دو فارمیشن اس پر حملہ کر چکی تھیں مگر یہ تباہ نہیں ہوا تھا.

انور شمیم کی قیادت میں روانہ ہونے والی اس فارمیشن میں سکواڈرن لیڈر منیر الدین نمبر ٹو جب کہ فلائیٹ لیفٹینٹ امتیاز بھٹی بھی ان کا حصہ تھے.
امتیاز بھٹی اپنی یادوں کے گوشے وا کرتے ہیں کہ جب ہم نے امرتسر کے مقام پر حملہ کیا تو ہمارے وار نشانے پر لگے تھے. تاہم سب کو اس بات کا اطمینان کرنا تھا کہ ٹارگٹ مکمل تباہ ہو گیا ہے. سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ, قیمتی اسلحہ اور سب سے بڑھ کر دشمن کے علاقے میں جا کر حملہ کرنے کا مناسب وقت اور جگہ ہمیشہ میسر نہیں آتا ہے.

واپس پلٹ کر حملہ کرتے ہوئے منیر الدین کے ریڈیو سیٹ سے صاف اور باوقار آواز ابھرتی ہے... نمبر ٹو از ہٹ!!!!
فلائیٹ لیفٹیننٹ (بعد ازاں ائر کموڈور) امتیاز بھٹی کہتے ہیں کہ "اس آواز میں نہ لکنت تھی اور نہ کوئ خوف. بھرپور اطمینان اور سکون تھا ... میں نے آج تک ان کی اس طرح کی پرسکون, صاف آواز نہیں سنی تھی. وہ آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے.

نمبر ٹو از ہٹ."
سکواڈرن لیڈر منیر الدین واپس نہ آ سکے. امرتسر کے ریڈار کو خاموش کر دیا گیا. جنگ ستمبر میں شہید ہونے والے سکواڈرن لیڈر رفیقی, یونس حسن, سکواڈرن لیڈر اقبال, سکوارڈن لیڈر علاؤالدین ,منیر الدین سب کے نام سے موسوم روڈ تو ہمیں نظر آتے ہیں مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ان شہداء کے مدفن کہاں ہیں؟ ان کی مائیں ان کے لاشوں سے کیسے لپٹی ہوں گیں؟  یہ سب واپس نہ آ سکے تھے.

انہوں نے واقعی گھس کر مارا تھا. یہ کئ کئ بار ہندوستانی بیسوں پر حملہ کرنے گئے تھے. ایک چھ کی برتری والے ملک میں متعدد بار پہنچے تھے اور ان کے اپنے رن ویز پر ان کے اپنے عوام کے سامنے دو بدو لڑے تھے. انڈین عوام نے انہیں حملہ کرتے اور مقابلہ کرتے دیکھا تھا. ان میں سے کوئ بھی پائلٹ پاکستان کی حدود میں شہید نہیں ہوا تھا.
پاکستان کی حدود میں سات ستمبر کو آنے والے انڈین جہازوں کی تباہی کا حال سرگودھا کے عوام نے اپنی آنکھوں دیکھا.

سرگودھا کے رن وے پر جہاز میں بیٹھے ایم ایم عالم قرآن پاک کی تلاوت کرتے کرتے آنکھیں موند لیتے ہیں. دشمن کے حملے کا سائرن بجتا ہے تو فوراً ہوا میں پہنچتے ہیں. دنیا نے دیکھا کہ ایک منٹ سے کم وقت میں دشمن کے پانچ جہاز زمین پر ہوتے ہیں. یہ لمحات نہ آج تک کسی ہواباز کو میسر آئے اور نہ ہی مستقبل کی جنگوں میں ہونے کے آثار نظر آتے ہیں. یہ صرف ایم ایم عالم کا مقدر تھا.
جنگ ستمبر کے معرکوں میں کون کون سی داستاں لکھیں.

کس کس ہیرو کا تذکرہ کریں؟ چلیں  ان ہیروز کا تذکرہ کرتے ہیں جو فلائٹ لائن پر جہاز تیار کرتے تھے. جہاز پر اسلحہ لوڈ کرتے تھے. میزائلوں کے کنکشن بناتے اور اور بموں پر اللہ اکبر لکھتے تھے. یہ اقتدار, انا یا ہٹ دھرمی کی جنگ نہیں بقا کی جنگ تھی. یہی جنگ تھی جس پر روانہ ہونے والے بیٹوں کی مائیں, بیبیاں ,بیٹیاں, بچے جہازوں کے روانہ ہونے پر روانہ ہونے والے جہازوں کی تعداد گنتے تھے.

گھنٹوں پر محیط مشن کے ختم ہونے کا انتظار کرتے تھے. جہاز واپس لوٹتے تو واپس آنے والے جہازوں کی آواز سے اندازہ کرتے کہ کتنے لوگ واپس آئے ہیں. کسی فارمیشن میں ایک جہاز بھی کم ہوتا تو نظریں دروازوں کی طرف اٹھی رہتیں. سوچیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتیں. بچوں کو گود میں اٹھا لیتیں. کتنے ہی لوگ تھے جن کو اپنے بیٹوں کی تصاویر کے ساتھ زندگی گزارتے دیکھا ہے.

ان کے کور آل, یونیفارم, تمغوں سے لپٹ کر سوتے دیکھا ہے. فلائیٹ لیفٹیننٹ ایم اے بٹ شہید جب وطن عزیز پر قربان ہوئے تو چند ماہ بعد بیٹی پیدا ہوئ. وہ بیٹی بڑی ہوئیں تو ڈاکٹر بنیں. تمام عمر باپ کی شکل کا خاکہ بناتے گزرا, نہ لاڈ نہ پیار میسر آ سکا. سرفراز رفیقی کی بڑی بہن محترمہ اے آر سرور بیگم نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ میں نے رفیقی کو بچوں کی طرح پالا تھا.

مجھے معلوم تھا کہ میرے سرفراز کے جسم پر کہاں نشانات ہیں. میری خواہش رہی کہ میں اعجاز رفیقی شہید کے بعد اپنے دوسرے شہید بھائ سرفراز رفیقی کو دیکھ سکتی کہ اس کے جسم نے کون کون سی چوٹ برداشت کی. رفیقی تو ہلواڑہ کی مٹی میں جا بسے. یونس حسن شہید کی منزل بھی ہلواڑہ تھی. علاءالدین بُچ کا جسد خاکی گوروداسپور کے ریلوے اسٹیشن کے پاس اسی اسلحہ ٹرین کے قریب ہو گا جسے انہوں نے مکمل تباہ کر دیا تھا.

فلائنگ آفیسر افضل شہید کلائ کنڈہ میں امر ہوئے. منیر الدین امرتسر کے مکین ہیں. پاکستان میں ان شہداء کا حوصلہ زندہ ہے, بہادری کے درس رقم ہیں اور جرأت کے انمٹ نشان ثبت ہیں. میں اور آپ ہیں جو ان شہادتوں کے وارث ہیں. گروپ کیپٹن فہیم خان, ونگ کمانڈر نعمان خان اور سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی ہیں جو اسی مٹی کے بہادر ہواباز بیٹے ہیں جنہوں نے 27 فروری 2019 کو اہل پاکستان کو وقار اور اعزاز سے نوازا.

"آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ" نے جو ہزیمت بھارتی فضائیہ کے مقدر میں لکھی وہ ہوابازی کی تاریخ میں "فنٹاسٹک ٹی"کے سلوگن سے دشمن پاکستان کو ہمیشہ یاد رہے گی. پاکستان امن کا داعی ہے. امن کے لئے لڑتا اور امن کے لئے خواہاں ہے. ہم سب پاکستان ہیں... پائندہ پاکستان ہیں. ارض پاک کے تمام فضائی سرفروشوں کے لئے سلام عقیدت.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :