راشدمنہاس شہیدنشان حیدرکا 50 واں یوم شہادت

ہفتہ 21 اگست 2021

Zahid Yaqub Aamir

زاہد یعقوب عامر

راشد منہاس شہید نشان حیدر پانے والے سب سے کم عمر شہید ہیں. آپ پاک فضائیہ کے پہلے نشان حیدر اور کم سن پائلٹ تھے. نصف صدی قبل شہید ہوئے راشد منہاس شہید کا "بیس اگست" یعنی آج یوم شہادت ہے.
راشد منہاس کراچی سے لوئر ٹوپہ اپنی تربیت کے لئے روانہ ہوئے تو نہائیت کم عمر اور جسمانی طور پر بظاہر لاغر محسوس ہوتے تھے. لوئر ٹوپہ کے سرد موسم میں ان کا جذبہ اور ہمت بے مثال تھی.

انہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے گھر کو ایسے چھوڑا تھا. ان کے ساتھیوں میں طارق قریشی اور نسیم اللہ شامل تھے. ان کے ایک ساتھی اسد پال صاحب بھی تھے جو سرفراز رفیقی شہید کے بھانجے تھے.

(جاری ہے)


لوئر ٹوپہ, مری میں گزرے ان لمحات میں راشد منہاس کو سینئر اس بات پر سزا دیتے کہ آپ مسکرا کیوں رہے ہیں. وہ کمرے میں واپس آ کر قہقے بکھیرتے کہ مجھے مسکرانے پر سزا ملتی ہے.

کہا جاتا ہے کہ ان کی آنکھیں بہت روشن اور چمک دار تھیں. ان آنکھوں میں ایک منفرد سی مسکراہٹ ہمیشہ جھلکتی تھی. لوئر ٹوپہ کی تربیت نے انہیں بہت تبدیل کر دیا تھا. آواز میں گرج, مزاج میں سنجیدگی اور احساس ذمہ داری نظر آتا تھا.
راشدمنہاس نے لوئر ٹوپہ کے بعد رسالپور کی فلائنگ کی تربیت مکمل کی اور اس کے بعد پی اے ایف بیس مسرور (ماڑی پور) میں اپنی پیشہ تربیت کے لئے پہنچے.


یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا چرچا تھا, حالات دگرگوں اور سنگین تھے. بنگالی افسر واپس جانا چاہتے تھے. ان کی ہمدردیاں اپنے خطے کے لیے تھیں. انہیں واپس جانے کے لیے قانونی لحاظ سے روکا نہیں جاسکتا تھا مگر اس وقت تک تقسیم کے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے. پاکستان کے دو ٹکڑوں کا زخم کسی دل کے لئے بھی قابل قبول نہ تھا. پاکستان کے استحکام اور حفاظت کے لئے ہر پاکستانی تشویش اور دکھ و کرب کا شکار تھا.

مشرقی پاکستان میں جو مجموعی پاکستان کی بات کرتا وہ مجرم ٹھہرتا, مغربی پاکستان میں ہر سچے پاکستانی کے لئے تکلیف اور تشویش بڑھ رہی تھی.
اگست 1971 یعنی مشرقی پاکستان کے سانحہ سے محض چار ماہ قبل کے ان حالات میں فلائیٹ لیفٹیننٹ مطیح الرحمٰن نے ایک چال چلی. وہ پاک فضائیہ کے ائر بیس پر فلائیٹ سیفٹی افسر تھا. اس نے طیارے کو پائلٹ سمیت بھارت لیجانے کا منصوبہ بنایا.

اس نے وہ وقت چنا جس میں راشد منہاس کی پہلی سولو فلائٹ یعنی اکیلے, خودمختار فلائیٹ تھی. ماں منتظر تھیں کہ راشد اپنی پہلی سولو فلائٹ کے بعد گھر آئے گا. اس کی پسند کا کھانا تیار تھا. والد محترم اسے مسرور بیس سے واپس گھر لانے کے لئے منتظر تھے راشد منہاس انہیں کال کر دیں. والدہ محترمہ نے اپنے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا کہ اس روز میرا دل بہت بے چین تھا.

انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ منفرد ہونے والا ہے.
راشد منہاس نے عسکری تاریخ کا ایک منفرد کارنامہ سر انجام دیا. ان کے فلائیٹ سیفٹی آفیسر مطیح الرحمٰن نے ٹیکسی ٹریک پر جہاز میں کسی ممکنہ ہنگامی صورتحال کا اشارہ کیا. زیر تربیت (ٹرینی) پائلٹ آفیسر نے جہاز روکا. وہ انسٹرکٹر پائلٹ فوراً سوار ہو گیا. ہاتھ میں تھاما کلوروفارم کا رومال راشد کے منہ پر رکھا, مزاحمت کی صورت ہاتھ میں تھامے آہنی اوزار سے وار کیا ,راشد پر کلوروفارم کے سبب بے ہوشی طاری تھی اور لمحوں میں جہاز نیچی پرواز کرتے ٹھٹھہ کی طرف محو پرواز تھا.

اسی دوران راشد منہاس ہوش میں آتے ہیں. حالات کا جائزہ لیا تو عقبی کاک پٹ میں بیٹھا انسٹرکٹر پائلٹ جہاز کا کنٹرول تھامے انہیں موقع نہیں دے رہا تھا. منہ سے نقاہت بھری آواز نکلتی ہے, "بلیو برڈ بی انگ ہائ جیک, بلیو برڈ بی انگ ہائ جیک...."
جہاز کے دوسرے کاک پٹ میں بیٹھا مطیح الرحمان اس جہاز کے تمام فنکشن, عوامل, مہارت سے واقف ہے. وہ جہاز کو کم بلندی پر رکھے ہوئے ہے تاکہ ریڈار پر نہ دیکھا جا سکے.

چند ناٹیکل میل کا فاصلہ اور اس کم سن شہباز کا تاریخی فیصلہ... جہاز کا رخ زمین کی طرف کر دیا جاتا ہے. جہاز میں موجود دشمنِ پاکستان مطیع الرحمان ,اہم نقشے, ہوائ اڈوں اور اسلحہ خانوں کے راز اس شہید وطن کے ساتھ ہی مٹی کی آغوش میں چلے جاتے ہیں.
ممکن ہے یہ جہاز انڈیا سے واپس لے لیا جاتا. مطیع الرحمان بھی بنگلہ دیش چلا جاتا, مگر راشد منہاس کو گوارا نہیں تھا کہ اس کے ملک کا جہاز پاک فضائیہ کے پاس رکھے انڈین نیٹ جہاز کی طرح ان کی "وار ٹرافی" بن جاتا.

دنیا کہتی کہ یہ ہے وہ پاکستانی جہاز جس کے پائلٹ کو جہاز سمیت اغوا کر لیا گیا. یہ ہے وہ کور آل جو اس نے پہنا ہوا تھا... اسے فوجی زبان میں کہا جاتا ہے
"Death before Disgrace"
راشد منہاس اس بات کو نبھا گیا. سبکی و شرمندگی سے قبل موت ہی ہماری شان ہے. یہی ہماری غیرت و حمیت کا تقاضہ ہے. یہی ہے وہ درس جو راشد منہاس آنے والی نسلوں کو پڑھا گیا.
میں ایک روز اپنی اہلیہ کے ہمراہ راشد منہاس شہید کی والدہ محترمہ, راشدہ بیگم صاحبہ سے ملنے گیا تو وہ بیمار تھیں اور بستر پر دراز تھیں.

گفتگو کرنے میں شدید دقت تھی. انجم منہاس بھائ نے والدہ کو کہا کہ اماں... راشد کے بیس سے زاہد آپ سے ملنے آئے ہیں. میں ان سے کئ سال قبل جب ملا تھا تو وہ صحت مند اور خوش گوار انداز میں گفتگو کرتی رہیں. اس بار تکلیف میں تھیں. مگر اپنی نرس کو کہا کہ میرے راشد کے بیس سے آئے ہیں انہیں کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دیں. مجھے اصرار کیا کہ اگلی مرتبہ میں اپنی بیٹیوں کو ساتھ لے کر آؤں.

نوے سال کی عمر میں بھی راشد ہی ان کے دل کا ٹکڑا, سکون کا سبب اور ممتا نچھاور کرنے کی قابل ہستی ہیں. راشد سے وابستہ ہر شخص سے محبت کرتی ہیں. راشد کی ائر فورس سے آئے بیٹے میں اپنا راشد ڈھونڈتی ہیں. راشد تو دھرتی ماں کا بیٹا تھا, وہ دھرتی ماں کی عزت و وقار کا محافظ بن کر اسی دھرتی ماں کی آغوش میں سو گیا. قوم کے اس کم سن شہید کے لئے سلام عقیدت.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :