
فیک آئی ڈیز: باعث رحمت
پیر 11 مئی 2020

ذیشان نور خلجی
"میں چونکہ ایک گھریلو خاتون ہوں تو طبیعت میں ایک فطری جھجھک موجود ہے۔ لہذا اپنے فیس بک اکاونٹ میں، میں نے اپنا نام تو لکھ دیا لیکن پروفائل فوٹو والا خانہ ایسے ہی چھوڑ دیا۔ اور پھر پہلے ہی دن مجھے سات مختلف لوگوں کے میسجز موصول ہوئے۔ ان سب پیغامات میں ایک بات جو مشترک تھی کہ یہ سب حضرات ہی مجھ سے دوستی کے خواہاں تھے۔ جب کہ ایک لڑکے نے تو حد ہی کر دی اور پھر مجھے کہنا پڑا کہ میں تمھاری والدہ کی ہم عمر ہوں۔
(جاری ہے)
یہ محمد حسان ہیں جنہوں نے تین سال قبل سول انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ اور پھر نوکری نہ ملنے کے باعث اپنے آن لائن بزنس کا آغاز کیا۔ انہوں نے ایک فیس بک اکاؤنٹ بنایا اور لیڈیز انڈر گارمنٹس بیچنا شروع کر دئیے۔ لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ بجائے اپنے نام سے اکاؤنٹ بناتے، انہوں نے ایک مغربی طرز کا برانڈ نیم چن لیا اور پروفائل فوٹو پر ایک ماڈل گرل کی تصویر لگا دی۔
اور اب ان کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ لوگ آتے ہیں اور انباکس میں بجائے اپنا مطلوبہ سائز بتانے کے، ان سے انہی کا سائز دریافت کرنے لگتے ہیں۔ جواباً یقین دلانے کو، حسان صاحب اپنی ایک شریر مسکراہٹ والی سیلفی بھیجتے ہیں اور پھر مقابل کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔
ابلاغ کے دوسرے ذرائع یعنی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو ایک معتبر حوالہ ہیں اور صرف چنیدہ افراد ہی انہیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا کہ جس کی رسائی ہر شخص کی پہنچ میں ہے یہاں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا رہتا ہے۔ گو اس کے استعمال سے بہت سے لوگوں نے فائدہ بھی اٹھایا ہے لیکن ان پلیٹ فارمز پر اس قبیل کے افراد کی اکثریت ہے جن کی بدتمیزیوں کا ذکر اوپری واقعات میں ہوا ہے۔
آج سے دو اڑھائی سال قبل جب میں نے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا تھا تو مجھے فیک آئی ڈی کی اصطلاح کا علم ہوا۔ تب میں نے بھی یہی سوچا تھا کہ اچھا بھلا شریف حسین جانے کیوں بابا کی پری اور پرنسز ڈول بننا پسند کرتا ہے۔ لیکن اب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شریف حسین جیسے لوگ اپنی نیت میں کس قدر سچے ہیں۔ بلکہ ان کا یہاں ہونا تو باعث رحمت ہے۔
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئیے، ایک فیک آئی ڈی کیسے ہمارے اخلاق باختہ معاشرے کو سہارا دئیے ہوئے ہے۔ ان فیک آئی ڈیز کی بدولت کتنی ہی ثانیہ ارشد ہیں جو اپنا وقت خیر و عافیت سے یہاں گزار لیتی ہیں اور رزق کی تلاش میں سرکرداں کتنے ہی محمد حسان ہیں جو آوارہ مزاج نوجوانوں سے بچے رہتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف یہ پرنسز ڈولز والے شریف حسینوں کی کمائی کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے بلکہ ساتھ ساتھ ان پلے بوائز کی نفسیاتی تشفی کا سامان بھی ہے۔ میں تو اسے نفسیاتی عارضہ ہی کہوں گا کہ جب یہاں جنسی خواہشات پوری کرنے کو ہر طرح کا سامان میسر ہے تو پھر موبائل فون پہ خواتین کو تنگ کر کے یا پرنسز ڈول والے شریف حسین سے اپنی تسکین کا سامان کرنے کو نفسیات کے کھاتے میں ہی ڈالا جائے گا، جنسیات کے نہیں۔
میرا تو ماننا ہے اس منافق معاشرے میں فیک آئی ڈی کا کردار دراصل شاہی محلے کی اس طوائف کا سا ہے جس کے بارے میں منٹو نے کہا تھا کہ اگر یہ طوائفیں ہمارا گند سمونے کو موجود نہ ہوں تو ہمارے گلیاں، بازار غلاظت سے اٹے پڑے ہوں۔
صاحبو ! آپ بے شک اس شریف حسین المعروف پرنسز ڈول کو لعن طعن کرتے رہیں، میں تو اسے خراج تحسین ہی پیش کروں گا۔
بہت سے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اپنے بابا کی جان ! تجھے سلام۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذیشان نور خلجی کے کالمز
-
امام صاحبان کے غلط رویے
بدھ 6 اکتوبر 2021
-
مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں
منگل 28 ستمبر 2021
-
اللہ میاں صاحب ! کہاں گئے آپ ؟
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی
پیر 9 اگست 2021
-
جانوروں کے ابو نہ بنیے
جمعہ 23 جولائی 2021
-
عثمان مرزا کیس کے وکٹمز کو معاف رکھیے
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
بیٹیوں کو تحفظ دیجیے
پیر 28 جون 2021
-
مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے
پیر 7 جون 2021
ذیشان نور خلجی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.