دین نہیں دوکان خطرے میں ہے
پیر 11 جنوری 2021
حالیہ کرک مندر واقعہ کے تناظر میں اس خرابی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرک میں جو مندر مسمار کیا گیا تھا وہ ایک بے آباد مندر تھا جس کے قرب و جوار میں بھی کوئی ہندو آبادی نہیں تھی۔ بس یہی تھا کہ ہفتے دو بعد کوئی زائرین کی ٹولی وہاں پوجا پاٹ کے لئے آ جایا کرتی۔
تب مقامی علماء اکرام کو اندیشہ لاحق ہوا اور انہوں نے منبر سے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ یہاں اسلام کو خطرہ ہے اور اس کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ کفر کے ایوان تباہ کر دئیے جائیں۔
(جاری ہے)
شاید ایسے خرابی سمجھ میں نہیں آ سکے گی چنانچہ ہم تباہ شدہ مندر کی اینٹوں سے اٹھتے ہیں اور ایک دوکان کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں۔ اب یہ دوکان کس چیز کی ہے یہاں کیا چیز فروخت کی جاتی ہے اس سے قطع نظر یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دوکان داری کا اصل اصول کیا ہے۔ دوکانداری کا سب سے بنیادی اصول یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس میں گاہکوں کی دلچسپی برقرار رکھی جائے اور دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد کوئی نئی پروڈکٹ متعارف کروائی جائے ورنہ کاروبار جمود کا شکار ہو کر ٹھپ ہو جائے گا۔ تو اس مندر کو مسمار کرنے میں بھی صرف یہی اصول کار فرما تھا کہ اپنی دوکانداری کی بقا کے لئے ایک نیا اسٹنٹ چھوڑا جائے۔ ورنہ ایک عام فہم مسلمان بھی یہ بات جانتا ہے کہ اس مندر سے تو اسلام کو قطعاً خطرہ نہیں تھا ہاں لیکن علماء کے کاروبار کو آکسیجن ضرور چاہئیے تھی۔ اور مذہبی طبقات کو ایسی ضرورت کوئی پہلی بار نہیں پڑی بلکہ ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نہ کسی مذہبی جتھے کو ایسا مروڑ ضرور اٹھتا ہے جب اسلام کی آڑ میں دراصل ان کا اپنا پیٹ ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور اس میں قصور ان کا بھی نہیں ہے کہ جی پیٹ تو ان کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے لہذا ایسی حرکتیں یہ لوگ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ قصور دراصل اس عوام کا ہے جو ہمیشہ ان مذہبی ناخداؤں کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی طرح استعمال ہوتے آئے ہیں وہ بھی اس سادہ لوحی میں کہ ہم خدا کے دین کی خاطر مر رہے ہیں حالانکہ حقیقت میں وہ ان مذہبی دوکانداروں کی بقاء کی خاطر لڑ رہے ہوتے ہیں۔
یہاں میرے مخاطب بھی عوام ہی ہیں نہ کہ مذہبی طبقات۔ سو عوام کی خدمت میں عرض ہے خدارا اہل مذہب کی ان فضول حرکات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کیوں کہ آپ کے ایسے کاموں سے نہ تو مذہب کو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی خدا کے حضور آپ کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس سارے ٹوپی ڈرامے سے آپ کے دلوں میں ان جعلی عزت مآب ہستیوں کا اقبال مزید بلند ہو جاتا ہے اور پھر آپ مزید جانفشانی سے ان کے مقاصد کے حصول کے لئے جت جاتے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ آپ کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔
اگر بات اب بھی سمجھ میں نہیں آئی تو اس سانحہ مچھ کو ہی دیکھ لیجیے کہ کیسے چند خاص مکاتب فکر نے ان معصوم لاشوں کے اوپر اپنی اپنی مذہبی دوکانداری شروع کر دی۔ کچھ لوگ ایسے مطالبات لے کر سامنے آئے کہ جس سے ہزارہ برادری کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا جب کہ دوسری طرف کچھ لوگوں نے خاص ان کے مسلک کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا۔ میں یہاں کسی مخصوص گروہ کا نام نہیں لوں گا کیوں کہ ہر مخالف گروہ دوسرے گروہ کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتا ہے۔ واضح رہے یہاں میں ان سلیم فطرت لوگوں کا ذکر نہیں کر رہا جنہوں نے ہزارہ مظلومین کے درد کو واقعی اپنا درد سمجھا۔ اور نہ ہی مجھے یہاں خان صاحب کی ہٹ دھرمی کا ذکر کرنا ہے کہ ان کے متعلق کچھ کہنا اب فضول ہو چکا ہے۔ ہاں جوش کی روح سے معذرت کے ساتھ، صرف اتنا کہوں گا
ہر قوم پکارے گی ہمارا ہے خان
ہر دو صورت میں، لیکن سوچیے گا ضرور کہ سوچنے سے مذہب خطرے میں نہیں آتا۔ مذہب کو خطرہ صرف تب ہی لاحق ہوتا ہے جب اہل مذہب کے پیٹ پر لات پڑتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذیشان نور خلجی کے کالمز
-
امام صاحبان کے غلط رویے
بدھ 6 اکتوبر 2021
-
مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں
منگل 28 ستمبر 2021
-
اللہ میاں صاحب ! کہاں گئے آپ ؟
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی
پیر 9 اگست 2021
-
جانوروں کے ابو نہ بنیے
جمعہ 23 جولائی 2021
-
عثمان مرزا کیس کے وکٹمز کو معاف رکھیے
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
بیٹیوں کو تحفظ دیجیے
پیر 28 جون 2021
-
مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے
پیر 7 جون 2021
ذیشان نور خلجی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.