"ٹِک ٹاک دورِ جدید کا کوٹھا"‎

منگل 9 جون 2020

Zohaib Khattak

زوہیب خٹک

جواز اور دلیل دی جاتی ہے کہ عوام ٹک ٹاکرز کو پسند کرتی ہے ۔۔ اس لیے حکومت بھی ٹک ٹاکرز کو سراہتی ہے ۔۔۔
عوام کی ایک کثیر تعداد مجرے بھی پسند کرتی ہے تماش بینی ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے عوام کی ایک کثیر تعداد چرس بھی بہت پسند کرتی ہے ۔ کھول دیں بازار ۔۔؟؟ عوام کا اتنا خیال ہے تو عوام کو جو پسند ہے سب کھول دیں پھر پابندیاں قوانین اخلاقیات کا کیا لینا دینا ہمارے معاشرے سے۔

۔؟؟ جب ہم نے یہی دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے کہ جو جتنا مشہور ہے اتنا قابلِ عزت ہے تو پھر مجرے کرنے والیوں کو کنجر کہنا بند کریں وہ سٹیج پر ناچتی ہیں اور آج کل کی جدید طوائفیں موبائل سکرین پر عوام کا من و رنجن کرتی ہیں۔ یہ دوہرا معیار کیوں کہ سٹیج پر ناچنے والی کنجر طوائف نا جانے کیا کیا اور ٹک ٹاک پر ناچنے والی سٹار سلیبرٹی انفلووینسر ۔

(جاری ہے)

۔؟
جب ایسے لوگوں کو عزت و وقار اور شہرت ملتے کم عمر بچے دیکھتے ہیں تو وہ ان کو اپنا رول ماڈل بنا لیتے ہیں کہ مجھے بھی بڑے ہو کر یہی بننا ہے اور یہی سب کرنا ہے ۔ معزرت میں زرا دقیانوسی خیالات کا مالک ہوں ٹک ٹاک پر ناچنے کو ماڈرن کوٹھا سمجھتا ہوں اور ناچنے والوں کو اداکار فنکار نہیں بلکہ کنجر سمجھتا ہوں ۔ اپنی آنے والی نسل کی فکر کریں جو تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

  ہم نوے کی دہائی کی پیدائش ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے زمانے کو کروٹ بدلتے دیکھا اس لیے کچھ تربیت اثر کر گئی تو کچھ اخلاقیات کے دائرے میں خود کو قید رکھا ۔ ورنہ شہرت کون سا مشکل کام ہے ؟ صرف ایک سکینڈل کی مار ہے یہ شہرت آج کہیں منہ کالا کرائیں کل پورے ملک میں مشہور ۔۔
ہمیں تربیت ملی کہ بیٹا ذلت کی شہرت سے عزت کی گمنامی بہتر ہے ۔

لیکن کیا کیجیے کہ چند سالوں میں زمانہ ایسا بدلا کہ اس بات سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی وجہہِ شہرت کیا ہے ۔ بس مشہور ہیں یہی کافی ہے ۔۔ وہ کہتے ہیں نہ بدنام ہونگے تو کیا نام نا ہوگا ۔؟؟ یہ جن ناچنے والیوں کو ہم آج سٹار سلیبرٹی رول ماڈلز اینفلونسر کہتے ہیں انہیں چند سال پہلے لکھنئو اور لاہور کے بازارِ حسن میں طوائفیں کہا جاتا تھا۔

اب تو بس نام ہونا چاہئیے پھر آپ سٹار بھی ہیں سیلبرٹی ہیں اور اداکار فنکار بھی ۔۔
 
بد قسمتی سے ایسے لوگوں کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے والے بھی ہم ہی میں سے ہیں ۔ اور اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نئی نسل بھگتے گی ۔۔ ہم کتابیں پڑھتے بڑے ہوئے بزرگوں کی ڈانٹ ڈپٹ استادوں کی اخلاقیات والدین کی تربیت نے زندگی کا مقصد بنایا اچھا انسان اور باوقار شہری بننا ہے ۔

آج کے والدین پر بھی حیرت ہے جن کی عقل پر پردے پڑے ہیں اور وہ اس فہاشی و عریانی کو نیا دور سمجھ کر قبول کر بیٹھے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں ماشااللہ اللہ نے بچے کو بہت عزت دی ہے۔ اور کیوں نہیں جب حکومت بھی ایسے لوگوں کو سراہے گی میڈیا بھی مارنگ شوز میں بلائے گا تو پھر عزت شہرت تو ہو گئی نا ۔۔
اپنی آنے والے نسل کی تباہی و بربادی کے لیے زہنی طور پر تیار رہیں ۔۔ شکوہ نا کیجیے گا ہمیں کوئی بتانے سمجھانے یا بولنے والا نا تھا کیونکہ میں اپنا فرض پوری طرح نبھا رہا ہوں اور اس جدید دور میں بھی فیشن اور فہاشی کا فرق عوام کو بتا کر کر گالیاں کھا رہا ہوں ۔۔ خیر وہ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کرتے رہیں گے ۔ یہی سوچ کر ۔۔ "شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات" ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :