اکیسویں صدی ایشیا کی

جمعہ 27 نومبر 2020

Zubair Bashir

زبیر بشیر

عہد حاضر کی جو  ترقی یا صورت حال آج ہم دیکھتے ہیں، اس میں دنیا کے کئی خطوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اگر ہم انیسویں صدی کی بات کریں تو یورپی اقوام نے تعلیم و تحقیق کے میدان میں اپنی ترقی سے اس صدی کے خدوخال ترتیب دئیے تھے۔ بیسویں صدی میں امریکہ، یورپ کا ہم رکاب بنا اور اس صدی کا جو بھی حلیہ تھا وہ زیادہ تر اس اتحاد ہی کی  مرہون منت تھا۔

آج  ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اس صدی کے ابتدائی دو عشرے اب مکمل ہوا چاہتے ہیں۔ ان دو عشروں کے اختتام پر جو اشارے مل رہے ہیں وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ صدی ایشیا کی ہے۔  یہ مثبت اشارے چین کی جانب سے دئیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے چین نے نوول کورونا وائرس کی وبا پر کامیابی سے قابو پایا، اندرون ملک معاشی سرگرمیوں کو بحال کیا، عالمی برادری کے ساتھ انسداد وبا کی کوششوں میں بھرپور تعاون کیا اور اس کے ساتھ ساتھ آر سی ای پی اور سی پی ٹی پی پی جیسے معاہدوں کے ساتھ مستقبل کی عالمی ترقی کا روشن راستہ واضح کر دیا۔

(جاری ہے)


پندرہ نومبر کوجامع علاقائی اقتصادی شراکت داری معاہدے(آر سی ای پی) پر آسیان کے دس رکن ممالک، چین ،جاپان، جنوبی کوریا ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیانے دستخط کیے۔ اس طرح بڑی آبادی، ، رکن ممالک کی تعداد کے لحاظ سے بڑے ڈھانچے اوردنیا میں ترقی کی ٰبڑی صلاحیت اور گنجائش کے ساتھ آزاد تجارتی زون باقائدہ طور پر وجود میں آگیا۔ یہ معاہدہ نہ صرف گزشتہ بیس سالوں میں مشرقی ایشیا کے اقتصادی انضمام کے سفر میں ایک بہت اہم کامیابی ہے بلکہ دنیا کے لئے بھی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔

اس سے نہ صرف علاقائی ممالک کی جانب سے کثیر الجہتی اور آزاد تجارت کی حمایت کیلئے مضبوط عزم کا اظہار ہوتاہے بلکہ اس بات کو ثابت کرتاہے کہ کھلے تعاون سے ہی تمام فریقوں کا باہمی مفاد وابستہ ہے۔ آر سی ای پی کے 15 رکن ممالک کی کل آبادی ، معاشی حجم ، اور تجارتی حجم کل عالمی حجم کا تقریباً 30 فیصد ہے ، جس کا مطلب ہے کہ دنیا کی تقریباً ایک تہائی معیشت ایک مربوط مارکیٹ بن گئی ہے۔

اس معاہدے پر دستخط کرنا مشرقی ایشیائی علاقائی کے معاشی انضمام میں ایک نیا سنگ میل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مشرقی ایشیاء کی تین بڑی معاشی طاقتوں چین ، جاپان اور جنوبی کوریا نےباہمی اختلافات کے باوجود اس طرح کے معاشی معاہدے میں شمولیت اختیار کی ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی بھی آر سی ای پی میں شمولیت کچھ ایسی ہی ہے۔  ایشیا اور آسٹریلیا علاقائی معاشی انضمام کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ، جبکہ شمالی اٹلانٹک کے ممالک بریگزٹ کو حتمی شکل دینے کے طریق کار کے بارے میں تحفظ پسندی اور جزوی تنازعات میں الجھے ہوئے  ہیں۔

مؤخر الذکر کی وجہ سے یورپی یونین اور برطانیہ کی توانائی کے چار سال ضائع کرچکا ہے ، اور ابھی یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی پر اکتفا نہیں عالمی وبا نے تقریباً پورے یورپی خطے کی معیشت کو لڑکھڑا کر رکھ دیا ہے۔ ادھر امریکہ داخلی مسائل ، وبا اور تحفظ پسندی کا شکار ہو کر خود کو اپنے ہی اتحادیوں سے دور کرتا چلا جا رہاہے۔


چین "کمپری ہینسو اینڈ پراگریسو ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ" سی پی ٹی پی پی میں شمولیت کے لئے مثبت اور کھلے پن کے حامل رویے کا اظہار کررہا ہے۔  جس سےمعاشی عالمگیریت اور علاقائی معاشی انضمام کو فروغ دینے میں مدد ملے، تو چین کسی بھی ایسے معاہدے کو خوش آمدید کہتا  ہے۔واضح رہے کہ سی پی ٹی پی پی کا قیام 30 دسمبر  2018 کو عمل میں آیا تھا۔ اس میں جاپان ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، چلی ، نیوزی لینڈ ، سنگاپور ، برونائی ، ملائیشیا ، ویتنام ، میکسیکو اور پیرو سمیت 11 ممالک شامل ہیں۔

معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کی آبادی 498 ملین اور ان کا مجموعی جی ڈی پی دنیا کے کل جی ڈی پی کا 13 فیصد ہے۔
چین ہمیشہ آزاد ، شفاف ، باہمی فائدے کے حامل اور جیت جیت تعاون  پر مبنی علاقائی آزاد تجارت کے انتظام کے قیام کی حمایت کرتا ہے۔ کسی بھی علاقائی آزاد تجارت کے معاہدے کے لئے ضروری ہے کہ یہ  ڈبلیو ٹی او کے اصولوں کے مطابق ہو، کھلا ، جامع اور شفاف ہو۔چین کی اسی مثبت، عالمگیریت کی حامل اور کثیر الجہت پسند سوچ نے ایشیائی صدی کے خواب کو حقیقت کے سفر پر رواں دواں کر دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :