اسلامی تعاون تنظیم نے مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں بارے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپور ٹ جاری کر دی

انسانی حقوق کمیشن کا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں ،اقوام متحدہ کی قرار دادو ں کے مطا بق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے بھارتی انکار ،آزادی کی جائز جد وجہد کو دہشت گردی قرار دینے پر سخت تشویش کا اظہار

بدھ 4 اکتوبر 2017 21:02

;سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اکتوبر2017ء) اسلامی تعاون تنظیم کے آزاد مستقبل انسانی حقوق کمیشن نے مقبوضہ کشمیرمیں زندہ رہنے کے حق ، اظہار رائے کی آزادی ، مذہبی اورپر امن احتجاج کی آزادی پر پابندی کے علاوہ کشمیریوں کے دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش ظاہر کی جن کی بین الاقوامی انسانی حقو ق کے قانو ن کے تحت ضمانت فراہم کی گئی ہے ۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اوآئی سی کے آزاد مستقبل انسانی حقوق کمیشن نے جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کا جائزہ لینے کیلئے اپنے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے آزاد جموںوکشمیر کے حالیہ دورے کے بعد اپنی ویب سائیٹ پر ایک رپور ٹ جاری کی ہے ۔فیکٹ فائنڈنگ مشن کی قیادت کمیشن کے چیئرمین میڈ کگاوا کررہے تھے جبکہ دیگر اراکین میں ڈاکٹر راشد ال بولوشی، ڈاکٹر ریحانہ بنت عبد اللہ، سفیر عبدالوہاب، ڈاکٹر ایرگین ارگول، پروفیسر صالح صالح الکھاتالان اور ڈاکٹر عمر ابو ابا شامل تھے۔

(جاری ہے)

اوآئی سی کی وزرائے خارجہ کی 43ویںکونسل نے اپنی قراردادوں کے ذریعے آزاد مستقبل انسانی حقوق کمیشن سے درخواست کی تھی کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن وہاں بھیجے اور اپنی رپورٹ پیش کرے ۔فیکٹ فائنڈنگ مشن نے رواں سال 27سے 29 مارچ تک اسلام آباد اور آزاد جموںوکشمیر کا تین روزہ دورہ کیا ۔

رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے ٹیم کو اسلام آباد اور آزاد جموںوکشمیر کا دورہ کرنے اور مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے کشمیری مہاجرین اور تنازعے کے دیگر فریقین سے ملاقاتیں کرنے کی اجازت دی تاہم بھارت نے ٹیم کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جموںکشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اوراو آئی سی کے ایجنڈوں پر موجود سب سے پرانا بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ تنازعہ ہے ۔

رپورٹ کے مطابق آزاد مستقبل انسانی حقوق کمیشن کو موجودہ بین الاقوامی قوانین اور معیارات کی روشنی میںمقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں اور اسکی صورتحال کا جائزہ لینے اور بھارتی فورسز کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کی رپورٹ مرتب کرنے اور کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سفارشات مرتب کرنے کا ہدف دیا گیا تھا ۔

رپورٹ میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و تشدد خاص طورپر بھارتی فورسز کی طرف سے خواتین کی بے حرمتیوں کی شدید مذمت کی گئی ہے ۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ لوگوں کو احتجاجی مظاہروں سے روکنے کیلئے بڑے پیمانے پر کرفیو کے نفاذ اور مذہبی اجتماعات پر پابندی کی اطلاعات ہیں۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ مسئلہ کشمیربھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ یہ لاکھوں کشمیریوں کے سیاسی مستقبل کا مسئلہ ہے جوکہ اپنا پیدائشی اور ناقابل تنسیخ حق ، حق خودارادیت چاہتے ہیں ۔

کمیشن نے کہا کہ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ جیسے کالے قوانین کا استعمال انسانی حقوق کے عالمی معیار کے منافی ہے کیونکہ اس طرح کے قوانین کے ذریعے بھارتی فورسز کو کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار ، تشدد حتیٰ کہ قتل کرنے کے وسیع اختیارات حاصل ہیںاور فورسز کو یہ خوف بھی نہیں ہوتا ہے کہ ان سے اس حوالے سے کسی قسم کی جواب طلبی کی جائیگی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سب کا نتیجہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

کمیشن نے اقوام متحدہ کی قرار دادو ں کے مطا بق کشمیریوں کو انکا پیدائشی حق، حق خود ارادیت دینے کے بھارتی انکار اور آزادی کی جائز جد وجہد کو دہشت گردی قرار دینے پر بھی سخت تشویش ظاہر کی گئی ۔ کمیشن نے کہا کہ ان سب کا نتیجہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت میں نکلتا ہے، کمیشن نے اقوام متحدہ کی قرار دادو ں کے مطا بق کشمیریوں کو انکا پیدائشی حق، حق خود ارادیت دینے کے بھارتی انکار اور آزادی کی جائز جد وجہد کو دہشت گردی قرار دینے پر بھی سخت تشویش ظاہر کی ہے ۔

کمیشن نے نشاندہی کی کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ ، اسلامی تعاون تنظیم اور آئی پی ایچ آر سی اور عالمی برادری سے کافی امیدیںوابستہ ہیں کہ یہ ادارے انہیں حق خودارادت دلانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرانے کیلئے موثر اقدامات کریں گے۔ کمیشن نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کے حقوق کو تحفظ دے اور انہیں حق خود اردیت دلانے کے لیے آگے آئے۔

کمیشن نے عالمی ادارے پر یہ بھی زور دیا کہ وہ مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے ، کالے قوانین کی منسوخی اور کشمیربارے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے۔ کمیشن نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو آباد کر کے علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں کی نہ صرف مذمت کرے بلکہ انہیں روکنے کے لیے بھی اقدامات کرے۔

کمیشن نے عالمی ادارے سے یہ بھی کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کو اس بات کے لیے راضی کرے کہ وہ تمام تنازعات خاص طور پر جموںوکشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات کریں۔ کمیشن نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے بھی کہا کہ وہ جموںوکشمیر کیلئے اپنے ایک خصوصی نمائندے کی تقرری پر بھی غور کریں جسے وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جائزے کا خصوصی اختیار حاصل ہو۔

او آئی سی کے آزادانہ انسانی حقوق کمیشن نے حکومت پاکستان سے بھی کہا ہے کہ وہ کشمیریوں کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی مدد جاری رکھیں اور تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورموں پر اجاگر کرنے کا کام جاری رکھے ۔کمیشن نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کرے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو مقبوضہ علاقے تک رسائی دے، تمام کالے قوانین کو منسوخ کرے، نقل وحرکت کی آزادی اورعالمی طبی اداروں کو تشدد کا شکار افراد خاص طور پر پیلٹ گنز سے بصارت سے محروم ہونے والوں کو طبی امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔

کمیشن نے او آئی سی کو تجویز دی کہ وہ بھارتی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے کہ وہ او آئی سی اورآئی پی ایچ آر سی کے حقائق معلوم کرنے کی ٹیموں کومقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے تاکہ علاقے میں جاری انسانی حقوق کے الزامات کی تحقیقات کی جائے،کشمیریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے موقع پر ماہرین تعلیم، اقوام متحدہ اور او آئی سی کے رکن ممالک کے پالیسی سازوں اورانسانی حقوق کے عملداروں کی بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کرنے پر غور کرے ، جموں وکشمیر کے بارے میں او آئی سے کے رابطہ گروپ کے اشتراک سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس ،اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور او آئی سی کے وزراء کے اجلاسوں کے موقع پر ملاقوتوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ عالمی فورموں پر متفقہ موقف پیش کیا جاسکے اور بھارتی حکومت پر زوردیا جاسکے کہ وہ کشمیری رہنمائوں کو بیرون ملک سفر پر عائد پابندیاں ہٹائے۔

بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہنے کی صورت میں او آئی سی کے رکن ممالک پر زوردیا جائے کہ وہ بھارت کو انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اس ملک میں سرمایہ کاری کا بائیکاٹ اور اس پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کریں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفد نے اپنے تین روزہ دورے میں آزاد کشمیر کے صدر ، وزیر اعظم ، کشمیر و گلگت بلتستان کے امور کے بارے میں پاکستان کے وزیر، امور خارجہ کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان کے مشیر، حریت کانفرنس کے نمائندوں، متعلقہ سرکاری حکام، مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین، متاثرین، عینی شاہدین اور ان کے اہلخانہ سمیت آزاد کشمیر میںکنٹرول لائن کے نزدیک رہنے والے بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کے متاثرین، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقاتین کیں۔

کمیشن نے اپنے کام غیر جانبدار اور مناسب طریقے سے پورا کرنے کے لیے بلارکاوٹ اور آزادانہ اور شفاف رسائی دینے پر پاکستان اور آزاد کشمیر حکومتوں کی تعریف کی ہے۔ رپورے میں کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کئے گئے اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیاکہ بھارتی فوجیوں نے ریاستی دہشت گری کی جاری کاروائیوں میں معروف نوجوان رہنما برہان وانی کے ماورائے عدالت قتل کے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران 8جولائی2016ء سی31مارچ 2017ء تک 125معصوم کشمیریوں کو شہید کردیاہے۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ اس عرصے کے دوران پرامن مظاہرین پر بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے گولیوں ، پیلٹ اور آنسو گیس کی شیلنگ سے 16,325 افرادزخمی ہوئے۔ جن میں خواتین اور بچوں سمیت 7,485افراد پیلٹ لگنے سے زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ پیلٹ سے زخمی ہونے والوں میں 55افراد مکمل طورپر بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس عرصے کے دوران حریت رہنمائوں اور کارکنوں سمیت10450 افراد کوگرفتار کیاگیا اور ان میں 750افراد پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیا گیا۔ آئی پی ایچ آر سی ی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوجیوں کے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں میں94, 644افراد کو شہید کیا ہے۔ جس کے باعث 22, 834خواتین بیوہ 107,607بچے یتیم ہوئے ہیں۔