بجٹ 2018-19 میں آبادی میں اضافہ کے سدباب‘ ماحولیات کے تحفظ‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت تعلیم اور صحت کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کا بجٹ 2018-19ء پر اظہارخیال

بدھ 2 مئی 2018 23:41

اسلام آباد۔ 02 مئی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 مئی2018ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ بجٹ 2018-19 میں آبادی میں اضافہ کے سدباب‘ ماحولیات کے تحفظ‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت تعلیم اور صحت کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے‘ جب تک مرکز اور صوبے مل بیٹھ کر اس صورتحال کا تدارک نہیں کریں گے آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ 2018-19ء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے وفاقی بجٹ 2018-19ء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بیس کروڑ عوام نے پارلیمنٹ کو مینڈیٹ دیا ہے۔ منتخب وزیر مملکت سے بجٹ پیش نہ کرانے سے ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے یوٹرن کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

ہم نے ہمیشہ پارلیمنٹ کے تقدس اور بالادستی کی بات کی ہے جو سیاستدان اس ایوان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرے گا وہ سیاسی منظر نامے سے ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بجٹ کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر پیش کرنا چاہیے۔ موجودہ اسمبلی کے پاس آئندہ ایک سال کے اخراجات پر دستخط کرنے کا اختیار نہیں ہے جو بھی صحیح راستہ چھوڑ کر غلط راستے پر جاتا ہے اس کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چار وفاقی اکائیوں پر مبنی ہے۔ اس لئے پی ایس ڈی پی پورے ملک کے لئے ہوتا ہے۔ اس حوالے سے تین صوبوں کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا۔

اگر اسی طرز عمل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو پھر واپسی کا راستہ مشکل ہو جائے گا۔ ہم وفاق کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کا بنیادی مقصد ہی وفاق پاکستان کو مستحکم بنانا تھا۔ یہ تنقید اور پوائنٹ سکورنگ نہیں حقائق پر مبنی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کا مقصد ملک کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ جن گھروں کے اخراجات آمدن سے زائد ہو جائیں وہ گھر بک جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کا سب سے اہم مسئلہ آبادی میں اضافہ ہے۔صوبوں سمیت ہم سب اس اہم نکتے کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پورے بجٹ میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اگر اس مسئلہ پر توجہ نہ دی گئی تو انسان انسان کو کھانے کے لئے دوڑے گا۔ 1951ء میں پاکستان کی آبادی تین کروڑ 30 لاکھ تھی۔ 1961ء میں 4 کروڑ 30 لاکھ‘ 1972ء میں چھ کروڑ 50 لاکھ ‘ 1981ء میں 8 کروڑ 4 لاکھ‘ 1988ء میں 13 کروڑ اور 2017ء میں 21 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔

آبادی کے تناسب سے تعلیم اور صحت کی سہولیات کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔1996ء میں تعلیم کے لئے مختص بجٹ جی ڈی پی کا 2.6 تھا۔ صحت کے لئے بجٹ جی ڈی پی کا 0.9 فیصد ہے۔ ان وسائل سے 21 کروڑ عوام کا گزارا کیسے ہوگا۔ پینے کے صاف پانی کے لئے بجٹ میں رقم مختص نہیں کی گئی۔ پچھلے بجٹ میں اس حوالے سے 12500 ملین روپے مختص کئے گئے تھے۔ شہر گنجان ہو رہے ہیں۔

بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں‘ آلودگی بڑھ رہی ہے۔ گرین ایریا ختم ہو رہا ہے۔ بھارت میں گرین ایریا 23 فیصد‘ بنگلہ دیش میں 11 فیصد اور پاکستان میں 1.9 فیصد ہے۔ سکھر بیراج پر پانی صرف چار ہزار رہ گیا ہے۔ سندھ کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اگر آبادی 40 کروڑ تک پہنچ گئی تو پھر پینے کا پانی کہاں سے فراہم کریں گے۔ اس حوالے سے بجٹ میں اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل اور فیصلوں پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ ہمیں تنقید نہیں کرنا چاہیے حقائق کو مدنظر رکھ کر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ یو این ڈی پی نے 2015ء میں ہماری توجہ پانی کی قلت کی طرف دلائی تھی۔ صوبے اور وفاق بیٹھ کر جب تک ان حالات پر غور نہیں کریں گے تو آنے والی نسلیں ہمارے بارے میں کیا سوچیں گی۔ سندھ کی آبادی ساڑھے چار کروڑ اور اس کے لئے بجٹ ایک ارب سے زائد رکھا گیا ہے۔

صحت میں سندھ سب سے آگے ہے۔ ہر سال 28 لاکھ بچے آلودہ پانی سے مر جاتے ہیں۔ ایک لاکھ میں سے 170 بچے پیدائش کے وقت ہی مر جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو ضرورت ہے کہ مل جل کر باہمی اعتماد سے فیصلے ہوں۔ ہمیں میں کا لفظ ختم کرکے ہم کی طرف آنا چاہیے۔ بجٹ مل کر بنانا چاہیے۔ آئین کے تحت تعلیم کی مفت فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سندھ میں پانچ سالوں میں 14 نئی یونیورسٹیاں بنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر شہر میں میٹرو بسیں چلنی چاہئیں۔ پاکستان کی ترقی ہونی چاہیے‘ ہم اس ترقی کے مخالف نہیں ہیں تاہم ضروریات اور ترجیحات ہونی چاہئیں۔ پاکستان میں صحت و تعلیم کی سہولیات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت دس سال پورے کرنے جارہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ میری لیڈر بے نظیر بھٹو کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ ہماری کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے ہم باہر کے لوگوں کی ڈکٹیشن مانتے ہیں۔

زرعی شعبہ کو بجٹ میں نظرانداز کردیا گیا۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور اس پر گزارا ہے۔ ملک میں زرعی تحقیق پر توجہ نہیں دی جارہی بھارت میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 85 من ہے جبکہ پاکستان میں یہ 25 سے 30 من فی ایکڑ ہے۔ انڈسٹری ختم ہو رہی ہے۔ ملک میں سب سے منافع بخش کاروبار تعمیرات کا ہے۔ زرعی کاشت کا رقبہ کم ہو رہا ہے۔ 2013ء میں ہمارا ہر پیدا ہونے والا بچہ 74 ہزار کا مقروض تھا۔

2018ء میں پیدا ہونے والا بچہ 1 لاکھ 30 ہزار کا مقروض ہے۔ یہ صورتحال بھی ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک شدید مشکلات میں ہے۔ ہمیں مل بیٹھ کر ترجیحات کا تعین کرنے کے لئے فیصلے کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں گردشی قرضے 480 ارب کے تھے جو ادا کردیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اب پھر گردشی قرضے 514 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہماری کامیابیاں اور ناکامیاں سامنے آنی چاہئیں۔

تین سال سے صوبوں کو این ایف سی نہیں دیا گیا۔ بجٹ میں آمدنی 3070 ارب‘ اخراجات کا تخمینہ 5246 ارب روپے لگایا گیا۔ 2175 ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے۔ 2013ء میں مجموعی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا 60 فیصد تھا جبکہ موجودہ حجم جی ڈی پی کا 70 فیصد ہے۔ آئین کے تحت 60 فیصد سے زائد قرضوں کے لئے پارلیمنٹ سے اجازت لینا لازمی ہوتا ہے۔ ہم اس غیر آئینی اقدام کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ کہنا درست نہیں کہ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے۔ پٹرولیم لیوی سے عوام پر 400 ارب کا بوجھ پڑے گا۔