کراچی ، ضلع غربی کے حلقے این اے 252 میں ایم کیو ایم پاکستان، پاک سرزمین پارٹی، پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان سخت مقابلے کی توقع

پیر 9 جولائی 2018 22:59

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 جولائی2018ء) کراچی کے ضلع غربی کے حلقے این اے 252 میں ایم کیو ایم پاکستان، پاک سرزمین پارٹی، پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ این اے 252 منگھو پیر سب ڈویڑن اور مومن آباد سب ڈویڑن کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے‘ جن میں گلشن معمار، تیسر ٹاؤن، منگھوپیر، سرجانی ٹاؤن اور بند مراد کے علاقے شامل ہیں‘ این اے 252 میں رجسٹرڈ ووٹرز 2 لاکھ 19ہزار42 ہیں جس میں مرد ووٹرز ایک لاکھ 33 ہزار60 اور خواتین ووٹرز 85 ہزار 982 ہیں‘ حلقے میں شامل سرجانی ٹاؤن، گلشن معمار اور تیسر ٹاؤن کے علاقوں میں اردو بولنے والے افراد کی اکثریت ہے جبکہ منگھوپیر اور بند مراد کے علاقوں میں بلوچ، سندھی اور پختون آباد ہیں۔

پرانی حلقہ بندیوں میں یہ حلقہ این اے 242 اور 241 کے مختلف علاقوں پر مشتمل تھا۔

(جاری ہے)

ضلع غربی میں یہ نیا حلقہ بنایا گیا ہے۔اس حلقیمیں زیادہ تر علاقے سابقہ این اے 242سے شامل کئے گئے ہیں۔این اے 242 ماضی میں ایم کیو ایم کا گڑھ رہا ہے اورایم کیو ایم گزشتہ تین الیکشن بھاری مارجن سے جیت چکی ہے جبکہ این اے 241 میں ایم کیو ایم کو صرف 2002 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا گزشتہ دو الیکشن ایم کیو ایم جیتی ہوئی ہے اگر ہم گزشتہ الیکشنز کا جائزہ لیں تو 2013 کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے محبوب عالم نے این اے 242 سے 1لاکھ 66 ہزار 746 ووٹ لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے اکرم خان 10ہزار 800 ووٹ لیکر دوسرے، مسلم لیگ ن کے نجیب اللہ خان نیازی 9 ہزار 2 سو59 ووٹ لیکر تیسرے اور جماعت اسلامی کے تاج محمد خان 5 ہزار 655 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر رہے جماعت اسلامی نے دن ایک بجے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

اسی طرح 2008 میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عبدالقادر خانزادہ 1 لاکھ 47 ہزار 892 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے جبکہ پیپلزپارٹی کے آفاق خان نے 27 ہزار 294 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی ان کے علاوہ کوئی بھی امیدوار قابل زکر ووٹ نہیں کے سکا۔2002 کے الیکشن میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے رؤف صدیقی 62 ہزار 690 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ایم ایم اے کے تاج محمد خان 18 ہزار 299 ووٹ لیکر دوسرے اور پیپلزپارٹی کے محمد شاکر 6 ہزار 593 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔

چونکہ۔موجودہ این اے 252 میں سابقہ این اے 241 کے علاقے بھی شامل کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔الیکشن 2013 این اے 241 سے ایم کیو ایم کے سید اختر اقبال قادری نے 95ہزار 8 سو 66 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے ڈاکٹرسعید آفریدی 27ہزار 5 سو 37 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔جماعت اسلامی کے محمد لئیق خان نے 14 ہزار4 سو37 ووٹ لئے تاہم پولنگ جاری تھی کہ جماعت اسلامی نے دن 1 بجے الیکشن کابائیکاٹ کردیا۔

جمعیت علمائے اسلام کے مصباح العالم نے 11ہزار 4سو23 ووٹ لیکر چوتھی اور اے این پی کے سید کرم درویش 7 ہزار 1 سو 50 لیکر پانچویں نمبر پر رہے۔2008 میں ایم کیو ایم کے سید اقبال اختر قادری 93ہزار 6 سو 17 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے جبکہ اے این پی کے زربیل سید 36ہزار 2سو 36 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ پیپلزپارٹی کے محمد شاکر نے 11 ہزار 5 سو 44 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا۔2002 کے انتخابی نتائج حیران کن ہیں جب متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کے امیدوار محمد لئیق خان 26 ہزار 8سو12 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے جبکہ ایم کیو ایم کے فیروز الدین نے 26 ہزار 3 سو 33 ووٹ لیکر دوسری پیپلزپارٹی کے آفاق خان نے 6ہزار 2سو 64 ووٹ لیکر تیسری اور عوامی نیشنل پارٹی کے نعیم گل نے 5 ہزار 9 سو53 ووٹ لیکر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔

2018ئ کے انتخابات میں اس حلقے سے مجموعی طور پر19امیدوار میدان میں ہیں تاہم اصل مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان کے عبدالقادر خانزادہ، پاک سرزمین پارٹی کے افتخار رندھاوا، پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی اور ایم ایم اے کے عبدالمجید خاصخیلی کے درمیان متوقع ہے۔ شہری اور دیہی آبادی پر مشتمل اس حلقے میں ا س وقت کافی دلچسپ صورت حال ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی اس حلقے کی دو مضبوط جماعتیں ہیں دونوں کا ٹارگٹ اردو اسپیکنگ ووٹرز ہیں۔

پی ایس پی کا بطور پارٹی یہ پہلاالیکشن ہے جبکہ ایم کیو ایم اندرونی تنظیمی اختلافات کا سامنا ہے۔جبکہ ایم کیو ایم لندن گروپ کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان نے ایم کیو ایم کے ووٹرز کو کنفیوز کردیا ہے اورایم کیو ایم رہنماشاہد پاشا کی قیادت میں ورکرز ایکشن کمیٹی کا وجود میں آنا بھی ایم کیو ایم پاکستان کیلئے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوسکتا ہے۔

پی آئی بی گروپ اور بہادر آباد گروپ کے ایک ہونے سے بھی ایم کیو ایم کو خاص فائدہ حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ایم کیو ایم کو اپنے ووٹرز کے سوالات کا بھی سامنا ہے بلدیاتی حکومت ایم کیو ایم کے پاس ہونے کے باوجود کراچی میں متحدہ قابل زکر کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔اور میئر کراچی کے اختیارات نہ ہونے کے جواز کو بھی عوام قبول کرنے سے انکاری ہے۔

ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں بٹ جانے سے ووٹرز تذبذب کا شکار ہیں اور پاک سرزمین پارٹی کی صورت میں اب اردو اسپیکنگ طبقے کے پاس متبادل کا آپشن بھی موجود ہے۔پی ایس پی کے امیدوار افتخار رندھاو ا یم کیو ایم کے پرانے رہنما رہے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عبدالقادر خانزادہ اس سے پہلے بھی اس حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں تاہم اس مرتبہ صورت حال کافی مختلف ہے۔

شہری ووٹ پر ایم کیو ایم کی پہلے والی اجاہ داری نہیں رہی اور اردو اسپیکنگ ووٹ بھی پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے درمیان تقسیم ہوگا جس کا فائدہ ایم ایم اے اور پیپلزپارٹی کو ہوگا جبکہ دیہی علاقوں سے ووٹ صرف ایم ایم اے اور پیپلزپارٹی کو ملے گا۔ایم ایم اے کے امیدوار عبدالمجید خاصخیلی ہیں جو اس ہی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں۔2002ئ میں انہوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور پھر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی۔

حلقے میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہے اور دیگر دینی جماعتوں کے ووٹ بینک کے ساتھ ان کی پوزیشن کافی بہتر نظر آ رہی ہے۔پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی خواتین کی مخصوص نشست پر2013ئ کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی رہ چکی ہیں۔ان کو منگھو پیر اور دیگر گوٹھوں سے ان کو بڑی تعداد میں ووٹ ملنے کی امید ہے۔اس حلقے میں شامل علاقوں کو اورماضی میں پڑنے والے ووٹوں کو مدنظر رکھا جائے تو ایم کیو ایم سب سے مضبوط رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ اردواسپیکنگ ووٹ ایم کیو ایم کو ملنا تھا تاہم اس بار پی ایس پی کی وجہ سے یہ ووٹ تقسیم ہوگا جبکہ مقابلے پر پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کا بھی اچھا خاصہ ووٹ بینک ہے اگر دونوں میں مفاہمت ہوجاتی ہے تو ماضی کے نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ سیٹ ایم ایم اے یا پیپلزپارٹی کو بھی مل سکتی ہے تاہم اگر دونوں جماعتوں نے الگ الگ الیکشن لڑا تو پھر اصل مقابلہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے درمیان ہی ہوگا اور اس حلقے میں پی ایس پی ایم کیو ایم کے مقابلے میں زیادہ مضبوط پوزیشن کی حامل نظرآرہی ہے۔