اقتدار کا ہما کس کے سربیٹھے گا ،کون سنبھالے گا پانچ برس کیلئے ملک کی باگ ڈور ،فیصلہ عوام (پرسون )کرینگے

انتخابی عمل کیلئے تیاریاں آخری مرحلے میں داخل ہو گئیں ، 10کروڑ 59لاکھ 55ہزار 409پاکستانی اپنا حق رائے دہی استعمال کرینگے مجموعی طو رپر قومی ،صوبائی اسمبلیوں کیلئے ساڑھے 12ہزار سے زائد امیدوار میدان میں ہیں ،ملک بھر میں 85ہزار 307پولنگ اسٹیشنز قائم لاکھ 71ہزار فوجی جوان ،4لاکھ 49ہزار 465پولیس اہلکار تعینات ہونگے، ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جائیگی پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور بارہ دو، دو فوجی جوان تعینات ہونگے ،حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ، کنٹرول روم بھی قائم ملکی تاریخ میں پہلی بار پولنگ عمل کا وقت ایک گھنٹے بڑھایا گیا، ووٹرز صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک بغیر کسی وقفے کے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش کی پیشگوئی کے بعد متعلقہ اداروں نے حفاظتی انتظامات کر لئے ، تما م سرکاری ہسپتالوں کو بھی الرٹ کر دیا گیا

پیر 23 جولائی 2018 17:26

اقتدار کا ہما کس کے سربیٹھے گا ،کون سنبھالے گا پانچ برس کیلئے ملک کی ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2018ء) ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے عوامی نمائندوں کا انتخاب کل 25جولائی بروز ( بدھ )کو ہوگا ، مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی مین سے کون آئندہ پانچ سال کیلئے ملک کی باگ ڈور سنبھالے گا اس کا فیصلہ 10کروڑ 59لاکھ55ہزار409مرد و خواتین ووٹرز کریں گے ، الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تمام تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہیں ،پولنگ کا عمل صبح 8بجے سے شام 6بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہے گا ، کسی بھی نا شگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے سرکاری ہسپتالوں کو پیشگی الرٹ کر کے تمام سہولیات یقینی بنانے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں ،حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دئیے گئے ہیں جبکہ کنٹرول رومز کو بھی آپریشنل کر دیا گیا ،الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کردیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق آئندہ پانچ سال کیلئے نئی حکومت کے قیام کیلئے ووٹنگ کل 25جولائی بروز( بدھ ) کو ہو گی جس کیلئے تمام تیاریاں حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات 2018ء کیلئے ملک بھر میں مجموعی طور پر85ہزار 307پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں ، عوام کی سہولت کیلئے ہر ایک کلو میٹر بعد ایک پولنگ اسٹیشن قائم کیا گیا ہے۔

23ہزار 358مردانہ جبکہ 21ہزار 679پولنگ اسٹیشنز خواتین کیلئے علیحدہ بنائے گئے ہیں، خواتین اور مردوں کے 40ہزار 236مشترکہ پولنگ اسٹیشنز بھی بنائے گئے جبکہ ٹینٹ میں قائم پولنگ اسٹیشنز بھی قائم کئے گئے ہیں۔الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے ووٹنگ کا طریقہ کار وضع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں پولنگ افسر ووٹر کا اصل قومی شناختی کارڈ چیک کرے گا، پولنگ افسرشناختی کارڈ کی چیکنگ کے بعد ووٹرلسٹ میں درج نام چیک کرے گا اور ووٹر کا نام اور سلسلہ نمبر پولنگ ایجنٹس کے لیے بلند آواز میں پکارا جائے گا ۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹر کا سیدھی لکیر دے کر لسٹ سے نام کاٹ دیا جائے گا جس کے بعد کائونٹر فائلر پر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان لیا جائے گا، پھر انگوٹھے کے ناخن کے جوڑ پر ان مٹ سیاہی کا نشان لگایا جائے گا۔اس کے بعد قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر بیلٹ پیپر کی پشت پر دستخط کرے گا، دستخط لینے کے بعد ووٹر کو سبز رنگ اور سفید بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا اور ووٹر ووٹنگ اسکرین کے پیچھے جا کر اپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگائے گا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کا سبز بیلٹ پیپر سبز بکس جبکہ صوبائی اسمبلی کا سفید بیلٹ پیپر سفید باکس میں ڈالا جائے گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ کا عمل صبح آٹھ بجے شروع ہوگا جو بغیر کسی وقفے کے شام چھ بجے ختم ہوگا، پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد پولنگ اسٹیشن کا دروازہ بند کر دیا جائے گا اور وقت ختم ہونے پر صرف پولنگ اسٹیشن کے احاطے میں موجود ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوگی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات کے لیے 22کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں اور پہلی بار سکیورٹی فیچرز پر مبنی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے مطابق آفیشل کوڈ مارک اور اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر کے دستخط کے بغیر بیلٹ پیپر گنتی سے خارج ہوگا۔ پی سی ایس آئی آر کی جانب سے معیاری سیاہی فراہم کی گئی ہے جو اپنی جگہ برقرار رکھے گی ۔

واٹر مارک والے بیلٹ پیپر کے سوا دوسرا کوئی بیلٹ پیپر بھی گنتی سے خارج ہوگا۔الیکشن کمیشن کے مطابق صرف مخصوص 9 خانوں کی مہر والا بیلٹ پیپر ہی گنتی میں شامل ہوگا۔جبکہ وہ بیلٹ پیپر گنتی میں شامل ہوگا جس پر مہر کا نشان کسی خاص امیدوار کے لیے واضح ہو۔دوسری جانب کاغذ یا کوئی چیز لگانے سے بھی بیلٹ پیپر خارج تصور ہوگا۔الیکشن کمیشن کے مطابق ایک ہی نشان پر ایک سے زائد بار یا ایک ہی نشان پر مہر والا بیلٹ پیپر تسلیم ہوگا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات میں ملک بھر میں 20ہزار پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے جہاں پر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے جائیں گے ۔الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ کے روز مجموعی طور پر 16لاکھ افراد ڈیوٹی سرانجام دیں گے میں جن میں تقریباًساڑھے چار لاکھ پولیس،تین لاکھ کہتر ہزار فوج کے جوان سکیورٹی پر مامور ہوں گے اور فوجی جوان پولنگ اسٹشینز پر پریزائیڈنگ آفیسرز کے ماتحت کام کریں گے۔

حساس پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دئیے گئے ہیں جبکہ کنٹرول رومز کو بھی آپریشنل کر دیا گیا ہے ۔ لاہور کے 711 پولنگ سٹیشن حساس قرار دئیے گئے ہیں اور ان پولنگ سٹیشنزز پر 2886 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے مطابق حساس قرار دئیے گئے پولیس اسٹیشنز پر فوج اور پولیس کی اضافی نفری تعینات ہو گی۔ملک بھرمیں 85 ہزار307 پریزائیڈنگ افسران ڈیوٹی دیں گے،5لاکھ10ہزار356اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسران،2لاکھ55ہزار178پولنگ افسران ڈیوٹی دینگے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کے دوران ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر او) یا سیشن جج کے اختیارات کے تحت آنے والے مختلف جرائم کی نشاندہی اور اس حوالے سے ممکنہ سزا کا اعلان بھی کردیا۔الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹر کو زبردستی پولنگ اسٹیشن سے نکالنا اور ووٹر کو ووٹ ڈالے بغیر باہر جانے پر مجبور کرنا انتخابی بدعنوانی ہوگی۔بالواسطہ یا بلاواسطہ ووٹر کو ووٹ ڈالنے یا روکنے کے لیے کوئی تحفہ دینا، پیشکش یا وعدہ رشوت تصور ہوگا جبکہ کسی شخص کو ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے پر مجبور اور قائل کرنے لیے طاقت یا تشدد کا استعمال بھی جرم ہوگا۔

اس کے علاوہ دھمکی دینا، زخم یا نقصان پہنچانا، مذہبی شخصیت کی خوشنودی یا ناراضی سے متعلق دھمکی دینا بھی غیر قانونی جبکہ ووٹر کو اغوا، دھونس یا دھوکہ دہی اور ناجائز اثر رسوخ بھی جرم تصور ہوگا۔بیلٹ پیپر یا سرکاری مہر خراب کرنا، پولنگ اسٹیشن سے بیلٹ پیپر اٹھانا، بیلٹ باکس میں ووٹر کی پرچی کی جگہ دوسرا بیلٹ پیپر ڈالنا، بغیر اجازت کسی دوسرے کو بیلٹ پیپر مہیا کرنا اور بیلیٹ باکس یا بیلٹ پیپر اٹھالے جانا یا باکس کی سیل توڑنا بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔

پولنگ عمل میں خلل ڈالنا، جیسے انتخابی عمل کو کسی سرکاری ملازم کی مدد سے روکنا یا امیدوار کا انتخاب ممکن بنانے کی کوشش، پولنگ اسٹیشن پر بار بار ووٹ ڈالنے کی کوشش، پولنگ کے دوران آتشی اسلحہ کی نمائش یا ہتھیار رکھنا اور سرکاری ملازم کو تشدد کا نشانہ بنانا بھی غیر قانونی عمل ہو گا۔پولنگ اسٹیشن کے نزدیک شور کرنا جس سے ووٹر پریشان ہوں، انتخابی بے ضابطگی جبکہ پریزآئڈنگ افسر یا عملے کے کام پر اثر انداز ہونے کی کوشش اور پولنگ اسٹیشن کی 4 سو میٹر کی حدود میں ووٹر کو قائل کی کوشش غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔

الیکشن ایجنٹ کے لیے مخصوص جگہ یا ارد گرد 100 میٹر کے فاصلے پر کوئی نوٹس یا انتخابی نشان، بینر یا امیدوار کے خلاف پرچم لگانا جرم ہوگا۔ووٹر نے کس کو ووٹ دیا ہے، یہ جاننے کی کوشش کرنا یا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ایسی معلومات دینا یا ڈالے ہوئے ووٹ کی تصویر لینا یا کوشش کرنا بھی جرم تصور کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق ان تمام جرائم میں سیشن جج مجرم کو 3 سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں سنا سکے گا۔پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار پولنگ اسٹیشنز کے اطراف میں پیٹرولنگ بھی کریں گے جبکہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جائے گی ۔