لاپتہ افراد کے حوالے سے ریاستی اداروں نے آج تک خاص دلچسپی سے کام نہیں کیا،چیرمین نیب

پاکستان میں لاپتہ افراد کے معاملے کو سیاسی طورپر پیش کرکے ملک کا نام بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی جاری ہے، بعض غیر سرکاری تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں، سینیٹ قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کو بریفنگ

منگل 28 اگست 2018 21:53

لاپتہ افراد کے حوالے سے ریاستی اداروں نے آج تک خاص دلچسپی سے کام نہیں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 اگست2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران چیئرمین مسنگ پرسن کمیشن جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کاکہنا ہے کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کے معاملے کو سیاسی طورپر پیش کرکے ملک کا نام بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اس سلسلے میں بعض غیر سرکاری تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں۔

گزشتہ روز کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی سربراہی میں منعقد ہوا۔جس میں لاپتہ افراد کے بارے میں چیئرمین لاپتہ افراد جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے کو سیاسی رنگ دے کرپیش کیاجاتا ہے۔ کسی بھی خاندان کے ایک فرد کے لاپتہ ہونے پراصل حقائق کو پیش نہیں کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کمیٹی کو بتایا کہ سال 2011 ء سے لیکر اب تک 5190 افراد کے کیسزدرج رپورٹ کیے گئے ہیں۔جولائی 2018ء تک 3462 افراد لاپتہ تھے۔ انہوںنے کہا کہ آج تک لاپتہ افراد کے حوالے سے ریاستی اداروں نے خاص دلچسپی سے کام نہیں کیا۔اس سلسلے میں کمیشن نے لاپتہ افراد کے کیسز میں سے 3ہزار سے زائد کیسز نمٹائے ہیں۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ماما قدیر کی جانب سے پیش کردہ چالیس ہزار لاپتہ افراد کے بارے میں کوئی سچائی نہیں ہے ۔

بین الاقوامی سطح پرلاپتہ افراد کے بارے میں جو گھمبیر صورتحال پیش کی جاتی ہے ، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زمینی حقائق اس سے برعکس ہیں۔اسوقت 1828 لاپتہ افراد کے کیسز زیر التوا ہیں۔جن میں سے بلوچستان میں لاپتہ ا فراد کی تعداد صرف 131 ہے جن کے کیسز زیر التوا ہیں۔جاوید اقبا ل نے کہا کہ بلوچستان میں کئی قبائلی لوگوں کو غائب کرنے میں ملوث ہیں۔

بعض علاقوں میں ذاتی چپقلش کی بنیاد پر بھی اٹھالیاجاتا ہے۔حیربیار مری اور برہمداغ بگٹی کے ساتھ بے شمار لوگ بیرون ملک گئے انکے نام بھی لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل کردیے جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ جو لوگ جنیوا میں رہ رہے ہیں انکا نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست سے نہیں نکالے گئے۔صوفی محمد، منگل باغ اور مولانا فضل اللہ کے ساتھ جانے والے لوگوں کے نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ملکی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے پاکستانی بیرون ممالک میں جیلوں میں قید ہیں مگر ہم ہمسایہ ممالک سے بھی اس معاملے میں بات نہیں کرسکے۔ بہت سے پاکستانی افراد افغانستان کی جیلوںمیں موجود ہیں۔ننگرہار جیل میں بھی جو لوگ موجود ہیں وہ بھی لاپتہ افراد کی لسٹ میں ہیں البتہ انکی تعداد کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں۔

انہوںنے بتایا کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے لاپتہ افراد کے 789 کیسز تھے۔ان میں سے 564 کیسز نمٹائے جا چکے ہیں۔سندھ میں لاپتہ افراد کے 1500 سے زائد کیسز میں سے 1364 نمٹائے جا چکے ہیں۔سندھ میں زیادہ کیسز ایم کیو ایم کے لوگوں کے تھے۔ایم کیو ایم کے متعدد لاپتہ افراد جنوبی افریقہ میں روپوش ہیں مگر پاکستان میں وہ افراد لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل ہیں ۔

200 سے زائد کیسز میں دفاعی اداروں نے بھی اپنے لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی وزارت دفاع کے پاس موجود ہے۔سیاسی شخصیت کے دو بیٹے لاپتہ ہوئے تو کہا گیا یہ مسنگ پرسنز ہیں۔اجلاس میں ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری اس لئے ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں۔

میرے پاس سینکڑوں ایف آئی آر کی کاپیز ہیں لیکن پولیس ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ایسے بہت سارے کیسز ہیں جن کو اج سے 7 سال قبل مسنگ کراکر اب ان پر تھانوں کے اندر ایف آئی آر درج کرا دیتے ہیں ظلم جہاں بھی ہو جیسے بھی ہو ہم اس کی مخالف ہیں۔ احسان اللہ احسان پر اوپن کیس کیوں نہیں چلایا گیا جبری گمشدہ کیسز کو متعدد افسران نے کاروبار کے طور پر استعمال کیا گیا۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں حتمی رپورٹ جلد پیش کرونگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمیم محمود،