دنیا بھر میں 821 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں ،35ملین کا تعلق پاکستان سے ہے، عالمی ادارے کی رپورٹ میں انکشاف

اگر فوری طور پر غذائی قلت کے خاتمے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو مستقل میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے

منگل 16 اکتوبر 2018 23:47

دنیا بھر میں 821 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں ،35ملین کا تعلق پاکستان ..
حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2018ء) عالمی ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 821 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سی35ملین کا تعلق پاکستان سے ہے، اگر فوری طور پر غذائی قلت کے خاتمے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو مستقل میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، سندھ میں پانی کی قلت کی وجہ سے شعبہ زراعت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

یہ انکشاف حیدرآباد کے مقامی ہوٹل میں عالمی یوم خوراک کے حوالے سے یونائٹیڈ نیشن کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے تحت دی اسٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ کی تقریب رونمائی کے دوران کیا گیا، یونائیٹڈ نیشن کی نمائندہ جینیوو حسین نے بتایا کہ یہ رپورٹ تمام عالمی اداروں کی خصوصی معاونت سے تیار کی گئی ہے اور اس کی تقریب رونمائی پہلی مرتبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں منعقد ہوئی ہے، انہوں نے بتایا کہ ہمارے اقدامات اور ہمارا مستقبل کے نعرے کے تحت 2030ء تک غذائی قلت کو صفر کرنے کا ٹارگیٹ مقرر کیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کے شہر اسلام آباد میں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد 12 فیصد، پنجاب میں 14 فیصد، سندھ میں 22 فیصد، کے پی کے میں 20 فیصد، بلوچستان میں 40 فیصد، آزاد کشمیر میں 29 فیصد اور فاٹا میں 43 فیصد ہے۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کے رہنماء سینیٹر تاج حیدر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارے کی خوراک سے متعلق رپورٹ میں پیش کردہ اعدادو شمار حوصلہ افزا نہیں ، سندھ میں گندم کی پیداوار میں اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے جبکہ چاول بیرون ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بچے بھوکے رہ جاتے ہیں جس کا بنیادی سبب خوراک کی غیرمنصفانہ تقسیم اور عوام تک خوراک کی رسائی ممکن نہ ہونا ہے، پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں پہلا نکات ہی بھوک مٹائو پروگرام رکھا ہے جبکہ منشور میں زرعی انقلاب بھی شامل ہے جس کے تحت غریب خاندانوں، کسانوں اور خواتین کی مالی امداد کی جارہی ہے، پانی کی قلت کے خاتمے کیلئے پی پی کی حکومت سندھ میں 122 چھوٹے ڈیم تعمیر کررہی ہے جن میں سے 70 تعمیر ہوچکے ہیں، سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی نے کہا کہ ہم نے ماضی سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا، ہم اعلانات اور وعدے تو کرتے ہیں لیکن عملی اقدامات نہیں کرتے ہیںضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی پالیسیوں پر بہتر طریقے سے عملدرآمد یقینی بنانا چاہئے جب ہی ہم بڑھتی ہوئی خوراک کی کمی کوکم کرسکیں گے، ہمارے پاس وسائل موجود ہیں لیکن انہیں بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا طریقہ کار موجود نہیں، خوراک کی کمی پر قابو پانے کیلئے ہمیں زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کروانی پڑے گی، ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ایکسٹینشن سندھ ہدایت اللہ نے کہا کہ سندھ میں پانی کی قلت کی وجہ سے شعبہ زراعت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اگر پانی وافر مقدار میں ملتا رہے تو سندھ میں فصلوں کی اضافی پیداوار ممکن بنائی جاسکتی ہے، ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر نور محمد بلوچ کا کہنا تھا کہ زراعت کے حوالے سے ہمیں کافی چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے اپنی پیداوار میں اضافے کے ساتھ نئی نئی پراڈکٹ متعارف کروانے کی ضرورت ہے، اس موقع پر یو این ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر مسعود لوہار، یونیسیف کے ڈاکٹر مظہر اقبال، ورلڈ فوڈ پروگرام کے سید خادم شاہ، سماجی رہنما پروفیسر مشتاق میرانی، یو این کے وحید جمالی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔