بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کی نظرثانی درخواست ،ْسپریم کورٹ نے چوہدری پرویز الٰہی کو طلب کرلیا

بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلہ قانون سے ناواقفیت کی بنا پر ہے ،ْاعتزاز احسن یہ کیسے قانون سے ناواقفیت پر ہوگیا اختلافی نوٹ لکھنے والے جج نے بھی فیصلے پر دستخط کیے ہیں ،ْ چیف جسٹس

پیر 3 دسمبر 2018 19:54

بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کی نظرثانی درخواست ،ْسپریم کورٹ نے چوہدری پرویز ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 دسمبر2018ء) سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کی نظرثانی درخواست پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو طلب کرلیا۔ پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے فیصلے پر دائر نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔خیال رہے کہ موضع تخت پڑی اور موضع ملکھیتر میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے ناجائز قبضے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل کی تھی۔

اس درخواست پر سماعت ہوئی جس میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اعتزاز احسن پیش ہوئے، جنہوں نے بتایا کہ عدالت نے سروے جنرل کو جنگلات کی زمین کی حدود کے تعین کا حکم دیا تھا، جس کی رپورٹ ایک ہفتے میں آجائے گی۔

(جاری ہے)

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو اس پر نظرثانی کی ضرورت ہی نہیں، رپورٹ آنے پر عمل درآمد بینچ بنا دیں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جنگلات کا رقبہ طے ہوچکا، صرف حدود کا تعین باقی ہے، جنگلات کا رقبہ 2210 ایکڑ تھا۔

اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف عدالتی فیصلے میں ایک جج نے اختلاف کیاجس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اکثریتی فیصلے کا ہی اطلاق ہوتا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل اعتزاز احسن سے ازراہ تفنن پوچھا کہ آپ کو جج بننے کی پیشکش ہوئی تھی، آپ جج نہیں بنے کیوں کہ آپ کو پیسے پیارے تھے۔اس پر اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ میں نے سی ایس ایس بھی چھوڑا تھا کیونکہ مجھے پیسے پیارے تھے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں نہیں پیارے تھے، اس لیے جج بن گئے۔

دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ آپ درختوں کی بات کریں گے، جنگل کی بات کریں گے۔اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلہ قانون سے ناواقفیت کی بنا پر ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیسے قانون سے ناواقفیت پر ہوگیا اختلافی نوٹ لکھنے والے جج نے بھی فیصلے پر دستخط کیے ہیں۔چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ جنگلات کے رقبے کے حوالے سے آپ بحث کرچکے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دعوے کے مطابق رقبہ ایک ہزار 7سو 41 ایکڑ تھا جبکہ سپریم کورٹ اس دعوے کو مسترد کرچکی ہے، اصل رقبہ 2 ہزار 2 سو 10 ایکڑ ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے 2 ہزار 2 سو10 ایکڑ رقبہ معلوم شدہ ہے، یہاں سے جتنا جنگل کاٹا گیا وہ غلط کاٹا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بینچ نے تو سول کارروائی کا حکم دیا تھا، ہم فوجداری قانون کے تحت کارروائی پر غور کریں گے۔

نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پرویز الٰہی کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں کس قانون کے تحت بحریہ ٹاؤن کو زمین دی گئی، چوہدری شجاعت ،ْان کے بیٹے سالک اور بیوی کے نام منتقل ہوئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو نوٹس کرتے ہیں کہ کیسے زمین وزیر اعلیٰ کے بھائیوں کو چلی گئی۔اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے محکمہ جنگلات کی سمری منظور کی تھی اسی پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے تحت وزیر اعلیٰ کا حد بندی میں کوئی کردار نہیں، صرف ایک مساوی بنیاد پر سارا ریکارڈ بدل دیا گیا۔

سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اعتزاز احسن اس کا مجرم بحریہ ٹاؤن ہے یا اس وقت کی صوبائی حکومت اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی آکر بتائیں کہ حدبندی کا حکم کیسے جاری کیا، موضع تخت پڑی میں بحریہ ٹائون کے لیے زمین کی حد بندی پرویز الٰہی کے احکامات پر کی گئی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکوت کی زمین بحریہ ٹائون کو چلی گئی جبکہ پنجاب حکومت خود کہتی ہے کہ وزیر اعلیٰ کو حد بندی کی منظوری کا اختیار نہیں تھا۔بعد ازاں عدالت نے بحریہ ٹاؤن روالپنڈی ںظرثانی اپیل میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو عدالت طلب کرتے ہوئے سماعت منگل تک کیلئے ملتوی کردی۔