حکومت پچاس لاکھ گھر ضرور بنائے لیکن قبائلی علاقوں میں تباہ حال انفراسٹرکچر کیلئے کتنی رقم مختص کی گئی اسفندیارولی

قبائلی علاقوں میں تباہ حال تعلیمی اداروں کی بحالی اور فعالی جنگی بنیادوں پر ناگزیر ہے،قبائلی علاقہ جات کے لاکھوں لوگ اب بھی ملک کے دوسرے حصوں اور کیمپوں میں مقیم ہیں،پختونوں کے بلاک شناختی کارڈز کا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل طلب ہے ،قبائلی عوام پر 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ مسلط کر کے کیا پیغام دیا جا رہا ہی مرکزی صدر عوامی نیشنل پارٹی

جمعہ 11 جنوری 2019 19:05

حکومت پچاس لاکھ گھر ضرور بنائے لیکن قبائلی علاقوں میں تباہ حال انفراسٹرکچر ..
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جنوری2019ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے پختونوں کو درپیش مسائل کے فوری حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ طویل عرصہ سے حل طلب مسائل یکسر نظر انداز کرنے سے پختونوں کی زندگیوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور صوبے میں نئے شامل ہونیوالے اضلاع مواصلاتی طور پر منقطع اور ترقیاتی طور پر نظر انداز ہیں، اپنے ایک بیان میں انہوں نے قبائلی اضلاع میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری تباہی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردی اور اس کے بعد ہونے والے آپریشنز کے نتیجے میں قبائلی اضلاع میں ہونے والی تباہی سے لاکھوں قبائلی بے گھر ہو گئے اور اربوں روپے کی قومی و ذاتی املاک تباہ ہو گئیں،انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے جس کی تعمیر نو کیلئے تاحال کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا،اسفندیار ولی خان نے کہا کہ وزیر اعظم ملک بھر میں 50لاکھ گھروں کی تعمیر کے اعلانات کرتے رہے لیکن قبائلی عوام کے تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر کا کہیں ذکر نہیں ، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اس بات کی وضاحت کرے کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں اگر فاٹا میں ترقیاتی عمل سے قاصر ہیں تو وہاں پر تعمیر نو کا کام کون کرے گا انہوں نے کہا کہ فاٹا میں تباہ حال تعلیمی ادارے فعال وبحال کر کے زندگی کی تمام سہولیات و ضروریات کی فراہمی یقینی بنائے اور تباہی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں قبائلیوں کی باعزت ان کے گھروں کی واپسی کا ٹائم فریم دے، اسفندیار ولی خان نے قبائلی علاقوں میں مائنز کی موجودگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بیشتر قیمتی انسانی جانیں ان مائنز کی نذر ہو چکی ہیں اور اے این پی چاہتی ہے کہ ان مائنز کی صفائی کا عمل بغیر کسی تاخیر سے مکمل کیا جائے تاکہ بے گناہ معصوم انسانی جانیں لقمہ اجل بننے سے بچائی جا سکیں،انہوں نے پختونوں کے بلاک شناختی کارڈز کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ ملکی زرمبادلہ کمانے کیلئے لاکھوں پختون مختلف ممالک میں محنت مزدوری اور کاروبار کر رہے ہیں لیکن اب پختونوں کے بلاک شناختی کارڈز کا مسئلہ تاحال اٹکا ہوا ہے جبکہ اے این پی گزشتہ دور حکومت سے اس حوالے سے اہم کوششیں کرتی آ رہی ہے،انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کو آج تک بجلی سے محروم رکھا جا رہا ہے اور سردی کے باوجود 18گھنٹے لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے جبکہ قبائلی عوام اکیسویں صدی میں بھی موبائل سروس سے محروم ہیں، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور دیگر مقتدر حلقے کئی بار قبائلی اضلاع کا دورہ کر چکے ہیں لیکن کئے گئے اعلانات میں سے کسی کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ، انہوں نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر کے موبائل فون سروس بحال کی جائے تاکہ قبائلی عوام کالے قانون کے خاتمے کے بعد بنیادی انسانی ضروریات سے مستفید ہو سکیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری میں پختونوں کے ساتھ نا انصافی کی گئی اور وفاق کا حصہ زیادہ کرنے کی غرض سے پختونوں خصوصاً قبائلی عوام کی آبادی کم ظاہر کی گئی ، اننہوں نے کہا کہ اے این پی نے بارہا اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا لیکن کرتا دھرتا نے خاموشی اختیار کئے رکھی، انہوں نے کہا کہ فاٹا کے صوبے میں انضمام کے بعد تاحال انتظامی ، مالی و عدالتی اصلاحات کے حوالے سے ایوانوں میں خاموشی ہے ، انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو ترجیحی و جنگی بنیادوں پر ان اصلاحات کو عملی جامہ پہناکر بحالی و تعمیر کے کام میں تاخیر سے گریز کرنا چاہئے ، اسفندیار ولی خان نے استفسار کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت آئینی اختیار میں تبدیلی کرے جبکہ آئین میں گورنر کے اختیارات موجود ہیں،ایک اہم مسئلے کی جانب حکومتی توجہ مبذول کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجرا تاحال ممکن نہیں ہوا جس سے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بڑھتی جا رہی ہے ،اس کے برعکس حکومت پختونوں کے حقوق کیلئے متفقہ دستاویز اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ، انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا سمیت چھوٹے صوبے اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں اور اب وقت آ چکا ہے کہ ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی غرض سے 9ویں این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کیا جائے اور اس میں فاٹا کیلئے خاطر خواہ حصہ مختص کیا جائے ، انہوں نے برآمدات میں کمی کے حوالے سے حکومتی بیانیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان تجارتی راستوں کی بندش برآمدات میں کمی کی بنیادی وجہ ہے ، اگر ان راستوں کو کھولنے کیلئے کرتارپور راہداری جیسا رویہ اپنایا جائے تو ملکی برآمدات وسطی ایشیا تک جا سکتی ہیں جس سے ایکسپورٹ میں تیزی آئے گی، انہوں نے کہا کہ گڑ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی پیداوار ہے جو بارڈر بند ہونے کی وجہ سے افغانستان اور دیگر ممالک کو نہیں جا سکتا ، انہوں نے کہا کہ حزب اقتدار اہم مسائل پر خوصی توجہ دے تو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بحال ہو گا اور حالات یکسر تبدل ہو سکتے ہیں ، اسفندیار ولی خان نے کہا کہ اے این پی قبائلی اضلاع میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی ، انہوں نے پارٹی تنظیموں اور کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ قبائلی اضلاع میں ہونے والے الیکشن کیلئے اپنی تیاریاں زور و شور سے جاری رکھیں۔