حکومت ارزاں، قابل انحصار اور ملکی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے،

توانائی کی مارکیٹ کو بجلی کی خریداری اور فروخت کے لئے اوپن کیا جائے گا، لائن لاسز اور لوڈ مینجمنٹ زیادہ عرصہ برداشت نہیں کی جا سکتی، کنڈا سسٹم اور بجلی چوری کا خاتمہ کریں گے، بجلی چوری پر 1600 افراد کو جیل بھجوایا جا چکا ہے، 300 ملازمین کو چارج شیٹ کیا گیا ہے، 16 ہزار ایف آئی آرز درج کرائی گئی ہیں، ڈسٹری بیوشن نظام کو بہتر بنا کر 31 مارچ تک مزید 3500 میگاواٹ بجلی کو سسٹم میں شامل کریں گے، بانیان پاکستان نے سندھ مدرسة السلام اور علی گڑھ یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے قائم کر کے ثابت کیا کہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی وفاقی وزیر پاور ڈویژن عمر ایوب خان کی سندھ مدرسة السلام کے اساتذہ اور طلباء کے وفد سے بات چیت

بدھ 30 جنوری 2019 16:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جنوری2019ء) وفاقی وزیر پاور ڈویژن عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ حکومت ارزاں، قابل انحصار اور ملکی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے، توانائی کی مارکیٹ کو بجلی کی خریداری اور فروخت کے لئے اوپن کیا جائے گا، لائن لاسز اور لوڈ مینجمنٹ زیادہ عرصہ برداشت نہیں کی جا سکتی، کنڈا سسٹم اور بجلی چوری کا خاتمہ کریں گے، بجلی چوری پر 1600 افراد کو جیل بھجوایا جا چکا ہے، 300 ملازمین کو چارج شیٹ کیا گیا ہے، 16 ہزار ایف آئی آرز درج کرائی گئی ہیں، رتو ڈیرو میں ایک ماہ میں کنڈا سسٹم ختم کرایا ہے، پیسکو کے تین سرکلز 100 ارب روپے میں سے 85 فیصد واجبات کی عدم وصولی کے ذمہ دار ہیں، ڈسٹری بیوشن نظام کو بہتر بنا کر 31 مارچ تک مزید 3500 میگاواٹ بجلی کو سسٹم میں شامل کریں گے۔

(جاری ہے)

بدھ کو یہاں سندھ مدرسة السلام کے اساتذہ اور طلباء کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 21 سے 22 روپے فی یونٹ اور پن بجلی کی قیمت 5 روپے فی یونٹ ہے جبکہ ہم انرجی مکس تبدیل کرنا چاہتے ہیں، 2025ء تک قابل تجدید توانائی کی پیداوار انرجی مکس میں 20 فیصد اور 2030ء تک 30 فیصد تک بڑھائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری انرجی مارکیٹ میں سی پی پی اے واحد خریدار ہے، 9 تقسیم کار کمپنیاں کام کر رہی ہیں، کے الیکٹرک کی نجکاری ہو چکی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ مارکیٹ کو اوپن کیا جائے اور ملٹی بائیرز اور ملٹی سیلرز مارکیٹ بنائیں، کب تک لائن لاسز اور لوڈ مینجمنٹ کا سامنا کرتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے 100 ارب روپے کے واجبات وصول کرتے ہیں، پشاور، بنوں اور ڈی آئی خان کے تین سرکلز 85 فیصد واجبات وصول نہ ہونے کے ذمہ دار ہیں، کنڈا سسٹم اور کرپشن نیچے تک پھیلی ہوئی ہے، رتو ڈیرو سندھ میں ایک ماہ میں ہم نے کنڈا سسٹم کا مکمل خاتمہ کیا ہے اور وہاں 100 فیصد میٹرز نصب کئے گئے ہیں، جس کے بعد اب وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی۔

انہوں نے کہا کہ پیسکو کو نظام بہتر بنانے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا ہے، بجلی چوری کی روک تھام اور کنڈا سسٹم کے خاتمہ کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، 1600 افراد کو اب تک جیل بھجوایا جا چکا ہے، 300 ملازمین کو چارج شیٹ کیا گیا ہے جبکہ 16 ہزار ایف آئی آرز درج کرائی جا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ویلنگ اور نیٹ میٹرنگ کو فروغ دیں گے، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کی آج کے دور میں بہت اہمیت ہے اور توانائی اقتصادی ترقی کے لئے ایندھن کا کام کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے موجودہ انرجی مکس میں 60 فیصد بجلی تھرمل، 30 فیصد ہائیڈل، 6 فیصد نیوکلیئر اور 4 فیصد قابل تجدید سولر، ہوا اور چھوٹے پن بجلی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے اور ہماری تھرمل بجلی کا انحصار درآمدی ایندھن پر ہے جو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ہے اور پائیدار بھی نہیں ہے اس کے علاوہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بجلی کی مجموعی پیداواری استعداد 31 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ ہمارے پاس دستیاب بجلی 28 ہزار میگاواٹ ہے جس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، موسم گرما میں پن بجلی کی پیداوار ساڑھے سات ہزار میگاواٹ ہوتی ہے جو موسم سرما میں کم ہو جاتی ہے لیکن ہمارا ڈسٹری بیوشن سسٹم 19 ہزار سے زائد میگاواٹ بجلی کی ترسیل کی استعداد نہیں رکھتا، 2030ء تک ہم انرجی مکس 30 فیصد تک لے جائیں گے جس سے قابل تجدید توانائی کا انرجی مکس میں مجموعی حصہ 17 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گا، ہمارے پاس نیوکلیئر ذرائع سے بھی بجلی پیدا کرنے کا انتظام ہے اور ہم قابل انحصار، سستا اور ملکی وسائل سے بجلی پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔

عمر ایوب خان نے کہا کہ اس وقت بجلی کے آلات کی تیاری کا 96 فیصد کام چین کے پاس ہے، خصوصی اقتصادی زون بھی سی پیک کا حصہ ہیں، سی پیک 1959-60ء میں شروع ہوا تھا اور اس وقت شاہراہ قراقرم ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا جیسے بڑے منصوبے مکمل کئے گئے تھے، اب ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں خصوصی اقتصادی زون میں مصنوعات کے پرزہ جات کی تیاری پاکستان میں ہو اور ان کا حتمی مرحلہ چین میں مکمل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی ہمیں تیزی کے ساتھ آگے لے جائے گی اور اس وقت پاکستان کی دستاویزی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر ہے جبکہ اگر غیر دستاویزی حجم شامل کیا جائے تو یہ 500 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ عمر ایوب خان نے کہا کہ اس وقت ہماری آبادی کا 25 فیصد حصہ یعنی پانچ کروڑ افراد بجلی کی سہولت سے محروم ہے، ہم بلوچستان میں 16 ہزار ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کر رہے ہیں، پاکستان اس وقت دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی نظر پاکستان پر ہے، ہمارا مستقبل روشن ہے اور یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ جو ملک ہمارے ابائو اجداد نے بڑی قربانیاں دے کر اور اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے حاصل کیا ہے اس کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ بجلی چوری کرنے والوں کی جگہ دوسرے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں، سابقہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے گردشی قرضے میں ایک سال میں 400 ارب روپے کا اضافہ ہوا، ہم نیٹ میٹرنگ کو فروغ دینا چاہتے ہیں، بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں، 31 مارچ تک مزید 3500 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو جائے گی۔ عمر ایوب خان نے کہا کہ بانیان پاکستان نے سندھ مدرسة السلام اور علی گڑھ یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے قائم کر کے ثابت کیا کہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی اور اس تعلیم کے ہی نتیجہ میں ایک الگ وطن کی سوچ پیدا ہوئی، موجودہ دور ٹیکنالوجی کے ارتقاء کا دور ہے، صنعتی انقلاب اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے انقلاب سے ہم ملک کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔