Live Updates

آغا سراج درانی کی گرفتاری:پیپلزپارٹی کا قومی اسمبلی میں احتجاج

اپوزیشن اراکین نے بازﺅں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت کی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 21 فروری 2019 12:20

آغا سراج درانی کی گرفتاری:پیپلزپارٹی کا قومی اسمبلی میں احتجاج
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 فروری۔2019ء) قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی جانب سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا گیا. اسپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پیپلز پارٹی نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔

(جاری ہے)

اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے.

اپوزیشن ارکان نے سیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان میں احتجاج کیا .خورشید شاہ نے کہا کہ عوام سے ووٹ لے کر آنے والوں کے لیے ہمارے دل میں احترام ہے، اسپیکر کی کرسی پر چاہے کوئی بیٹھا ہو ہمارے لیے قابل احترام ہے. انہوں نے سوال کیا کہ اسپیکر کا ایک آئینی کردار ہوتا ہے، پارلیمنٹ تمام اداروں سے سپریم ہے، ایک منتخب ایوان کے اسپیکر کو گھسیٹ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے آغا سراج درانی کسی چیز میں ملوث ہوں لیکن یہ رویہ قابل قبول نہیں، آغا سراج درانی کے خاندان کی ایک سیاسی تاریخ ہے.خورشید شاہ نے کہاکہ اسپیکر اسمبلی ایوان کا کسٹوڈین ہوتا ہے، اسپیکر خود کمزور ہوگا تو اسمبلی کیسے چلے گی، جیلیں سیاست دانوں کے لیے بنی ہیں، کسی اور کا احتساب کبھی نہیں کیا گیا.

انہوں نے کہا کہ اگر سیاست دان ایک دوسرے کو چور کہیں گے تو عوام کیا کہے گی، ہم ایک دوسرے کے لئے ہی مصیبت بنے ہوئے ہیں. انہوں نے دعویٰ کیا کہ کیس بنائے جاتے ہیں اور کہا کہ سراج درانی پر کونسا کیس تھا؟ ان پر بھی کیس بنایا گیا ہے انہوں نے کہا کہ منتخب اسپیکر کو گھسیٹا جانا نئے پاکستان کا کارنامہ ہے. انہوں نے وزیر اعظم عمران خان پر غیر ذمہ دارانہ بیان دینے کا الزام لگایا اور کہا کہ ملک کے سربراہ کو ایک ایک بیان سوچ کر دینا چاہیئے، وزیراعظم نے یہ بیان کیوں دیا کہ نئے پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہوگی.

انہوں نے سوال کیا کہ کیا پہلے دہشت گردی خود کرائی جا رہی تھی؟انہوں نے کہا کہ ہمارے احتجاج کو صرف لفظی جنگ نہیں سمجھا جائے، حکومتی بنچز نے صرف ایک کروڑ 81 لاکھ ووٹ حاصل کیے جبکہ اپوزیشن نےدو کروڑ 32 لاکھ ووٹ لیے ہیں. قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر نے اپنے خطاب میں کہا کہ لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں، لیکن اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے‘انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ایک منتخب اسپیکر کے گھر ان کی فیملی کو یرغمال بنایا گیا، ہم اس کا ہر سطح پر احتجاج کریں گے آج ’اے‘ کو پکڑا گیا کل ’بی‘ کو پکڑا جائے گا.

انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ وفاق کی اکائی کے اسپیکر کی گرفتاری پر آپ کو بھی احتجاج کرنا چاہیے، اگر آپ نے احتجاج نہیں کیا تو آپ سندھ کے لوگوں کو پیغام دیں گے آپ کو جینے کا حق نہیں. انہوں نے احتجاج کا اعلان کیا اور کہا کہ میں احتجاج کرتا ہوںہم احتجاج کرتے ہیں، اپوزیشن احتجاج کرتی ہے، ہمارے احتجاج کو صرف لفظی بات مت سمجھا جائے اور ساری پارلیمنٹ احتجاج کرے.

انہوں نے کہا کہ اگر آج کا دن آپ نے گنوایا تو آنے والی نسلوں میں بھی کوئی احتجاج کرنے والا نہیں ہوگا. بعد ازاں اسپیکر اسمبلی کی جانب سے خورشید شاہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے راہنما شفقت محمود کو مائیک دینے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور اپوزیشن ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے‘سابق اسپیکر ایاز صادق نے اپوزیشن ارکان میں سیاہ پٹیاں تقسیم کیں.

اسپیکر اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن سے درخواست کی گئی کہ معاملے پر حکومتی موقف بھی سنا جانا چاہیے جس پر شفقت محمود نے اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود خطاب کا آغاز کیا. انہوں نے کہا کہ 2008 میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، اگر انہیں لگتا ہے کہ نیب کا قانون خراب ہے تو 10 سال میں قانون تبدیل کیوں نہیں کیا. انہوں نے کہا کہ نوازشریف اور خورشید شاہ نے مل کر چیئرمین نیب کا انتخاب کیا اور نیب وزیر اعظم سے ہدایت نہیں لیتا تو خورشید شاہ سارا غصہ ہم پر کیوں نکال رہے ہیں.

انہوں نے کہا کہ نیب صحیح کررہا ہے یا غلط اس کا دفاع کرنا میرا کام نہیں، ہم سب جمہوریت کی بقاءکے لئے ایک ہیں لیکن جمہوریت اور پارلیمنٹ بدعنوان افراد کے لئے ڈھال نہیں بنے گی. اپوزیشن کی جانب سے کالا قانون کے نعرے بازیوں پر انہوں نے کہا کہ بڑی اچھی بات ہے، نیب کو کالا قانون کہہ رہے ہیں، آج نعرے ما رہے ہیں لیکن انہیں اپنے دور حکومت کے گزشتہ 10 سال میں یہ قانون کالا نہیں لگا یا یاد نہیں آیا.انہوں نے سوال کیا کہ کوئی گرفتار ہو تو کیا قانون سے بالاتر ہو گیا؟شفقت محمود نے کہا کہ میں اپوزیشن سے استدعا کرتا ہوں کہ احتجاج کرنا ہے تو عدالت جا کر کریں، انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ یہ کالا قانون کے نعرے کس کے خلاف لگا رہے ہیں.

شفقت محمود کے بعد اسپیکر اسمبلی نے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کو مائیک دیا‘سابق وزیر اعظم نے کہاکہ آغا سراج درانی کی گرفتاری سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے، اگر اسپیکر سندھ اسمبلی کےخلاف کوئی شکایت تھی اس کا ایک طریقہ ہے ایسا کیا تھا کہ سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا. انہوں نے کہا کہ آغاسراج درانی کی گرفتاری قابل مذمت ہے، پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے، اسپیکر کے گھر پر 10 سے 12 گھنٹے تک بغیر اجازت چھاپا مارنا درست نہیں.

انہوں نے سوال کیا کہ اگر اسپیکر کے خلاف کوئی شکایت تھی تو کیا اس پر نیب کا اپنایا گیا طریقہ کار درست تھا؟بعد ازاں اپوزیشن اراکین نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا‘اپوزیشن کے شدید احتجاج پر اسپیکر قومی اسمبلی نے 22 فروری تک کے اجلاس ملتوی کردیا. 
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات