یاسین ملک کی نظربندی کی وجوہات تین سال پرانی ہیں‘عدالتیں ان الزامات سے انہیں بری کر چکی ہیں ‘سید علی گیلانی

حریت رہنمائوںکی سرگرمیوں پر قدغن ااور انہیںنظربند کرنے کیلئے ایسے بہانے تراشے جاتے ہیں جن سے کشمیری عوام بخوبی آگاہ ہے مودی کے پاس اب چونکہ عوام کو دکھانے کیلئے کچھ نہیں تو دہائیوں پرانے واقعات کو دہرا کر ایک بارپھر آزادی اظہار کا گلا گھونٹا جارہا ہے

جمعہ 15 مارچ 2019 12:27

یاسین ملک کی نظربندی کی وجوہات تین سال پرانی ہیں‘عدالتیں ان الزامات ..
سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مارچ2019ء) مقبوضہ کشمیرمیںکل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے بھارتی قابض انتظامیہ کی طرف سے جموںوکشمیرلبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمدیاسین ملک کی کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندی کی وجوہات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یاسین ملک کے خلاف یہ الزامات تیس سال پرانے ہیں اور خود بھارتی عدالت انہیں ان سے بری کرچکی ہیں۔

کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق سیدعلی گیلانی نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہاکہ حریت رہنمائوںکی سرگرمیوں پر قدغن ااور انہیںنظربند کرنے کیلئے ایسے بہانے تراشے جاتے ہیں جن سے کشمیری عوام بخوبی آگاہ ہے اور اس کے پیچھے کارفرما سوچ کو بھی جان چکی ہیں کیسے حریت رہنمائوں کو سیاسی انتقام پر مبنی پالیسیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ بھارت کی پڑھی لکھی بیروکریسی نے یاسین ملک کی نظربندی کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ 30سال پرانی ہیں اور اُنہیں بھارتی عدالتیں ان سے پہلے ہی بری کرچکی ہیں۔

سیدعلی گیلانی نے کہاکہ نریندر مودی کے پاس اب چونکہ عوام اور خاص کر ووٹ بینک کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو دہائیوں پرانے واقعات کو دہرا کر ایک بارپھر آزادی اظہار کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔انہوںنے کہاکہ کشمیری حریت قیادت ہی نہیں ، بلکہ کشمیری عوام بھی اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کے اقراری مجرم ہیں اور ہم غاصب طاقتوں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسے مذموم اور اوچھے ہتھکنڈوں کو آزما چکے ہیں، لیکن ظلم وجبر کے اس طویل سلسلے کے باوجود نہ تو حریت قائدین اور نہ ہی کشمیری عوام نے کسی قسم کے کوئی سمجھوتے پر آمادگی ظاہر کی ہے ۔

حریت چیئرمین نے کہاکہ امن وامان میں خلل ڈالنے، اسکولوں پر حملے اور شہری زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے جیسے بھونڈے اور من گھڑت الزامات خود بھارتی حکومت اور اسکی بیروکریسی کے لیے مضحکہ خیز ہیںاور بیوروکریسی اورمقامی انتظامیہ کو ایسے ڈوزئیرپر دستخط کرتے وقت اپنی تعلیم اور ذہانت کا کوئی پاس ولحاظ رکھناچاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم بار بار اس بات کا ببانگ دھل اعلان کرچکے ہیں کہ جموںو کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو عوامی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے اور ان بچگانہ حرکتوں کے بجائے اصل مقصد کی طرف توجہ مرکوز کی جانی چاہیے تاکہ اس دیرینہ تنازعے کا پائیدار حل تلاش کیا جاسکے بصورت دیگر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی ختم نہیں ہو سکتی ۔