ْ شرف الزماں کا وزیر اعظم عمران خان سے نجی تعلیمی ادارے بچائوریلیف فنڈ قائم کرنے کامطالبہ

پیر 18 مئی 2020 16:20

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 مئی2020ء) پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین اور آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن سندھ کے صدر شرف الزماںاوراے پی آئی سندھ کے صدربشیر احمد چنہ نے وزیر اعظم عمران خان سے نجی تعلیمی ادارے بچائوریلیف فنڈ قائم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاہے کہ سندھ میں رجسٹرڈ نجی تعلیمی ادارون کی تعداد تقریباً بارہ ہزار ہے جن میں تقریباً سات ہزار دو سو یعنی ساٹھ فیصد وہ اسکولز ہیںجن کی ماہانہ فیس پانچ سوسے پندرہ سو ہے اسی حساب سے ان اسکولوں میں لاکھوں کی تعداد میں غریب والدین کے بچّے زیر تعلیم ہیںانہوں نے کہاکہ یہ نجی تعلیمی ادارے علم دوست افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت قائم کیے ہیں ان نجی تعلیمی اداروں کو نہ تو شہری ، نہ صوبائی اورنہ وفاقی حکومت کے علاوہ کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی این جی اوز کسی بھی قسم کا نہ توکوئی فنڈ فراہم کرتی ہیںاور نہ ہی کسی قسم کی امدادشرف الزماں نے کہاکہ اس کے برعکس غریب و متوسط علاقوں میں قائم یہ نجی اسکولز ر رجسٹریشن کے نام پر ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز، ثانوی تعلیمی بورڈ ،سائن بورڈ ٹیکس، سوشل سیکوریٹی ،ای او بی آئی،لیبر ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس اور تمام یوٹیلیٹی بلز کمرشل ٹیرف پراور دیگر کئی ٹیکسزحکومت کو باقائدگی سے ادا کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ صوبائی حکومت کے حکم کے مطابق ہر نجی اسکولز اپنے طلباء کی مجموعی تعداد پر 10 فیصد طلباء کو بھی فری اسکالر شپ دے رہے ہیںسپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک کیس میں نجی تعلیمی اداروں کو دو کیٹگری میں تقسیم کردیا ہے ایک وہ جوپانچ ہزارسے کم فیس لیتے ہیںاور دوسرے وہ جوپانچ ہزارسے زائد فیس لیتے ہیںلیکن بدقسمتی سے غریب اور متوسط بستیوں میں چلنے والے نجی تعلیمی ادارے جن کی ماہانہ فیس پانچ سو سے پندرہ سو روپے ماہوار ہے انہیں صوبہ سندھ میں تعلیم کو عام کرنے اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے با وجود حکومت کی جانب سے یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے شرف الزماںنے کہاکہ حکومت سندھ کے حکم کے مطابق 26 فروری سے سندھ بھر کے تمام نجی وسرکاری تعلیمی ادارے تاحال بند ہیںسرکاری تعلیمی اداروں کے تدریسی و غیر تدریسی اسٹاف کو سرکار کی جانب سے گھر بیٹھے تنخواہیں ادا کی جاری ہیںکیونکہ متوسط طبقے کی ان بستیوں میں چلنے والے 98فیصدنجی تعلیمی ادارے کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں اور موجودہ حالات میں انہیں اپنے وجود کو برقرار رکھنا نہایت مشکل ہوگیا ہے انہوںنے کہاکہ یہی نہیں بلکہ سندھ حکومت کی جانب سے تمام طلباء کو اپریل اور مئی کی فیسوں میں 20 فیصد کی رعایت کا حکم بھی دیا گیا ہے جسے نجی تعلیمی اداروں نے خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے طلباء کی فیسوں میں 20 فیصد رعایت بھی دے دی اس کے علاوہ حکومت سندھ نے ایک اور فرمان جاری کرتے ہوئے کہاکہ نجی تعلیمی ادارے بند ہونے کے با وجود اپنے اسٹاف کو ملازمت سے فارغ نہیں کریں گے ہم نے ان کے حکم کو مانتے ہوئے ایک فرد کو بھی ملازمت سے فارغ نہیں کیااگر اسکولز مسلسل بند ہوں گے تو آخر نجی تعلیمی ادارے کب تک اس بوجھ کو برداشت کر سکیں گے کیونکہ غریب اور متوسط طبقوں میں چلنے والے یہ نجی تعلیمی ادارے خالصتاً طلباء کی فیسوں کے ہی مرہونِ منت چل رہے ہیں شرف الزماںنے کہاکہ لاک ڈائون کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر بھی یہ غریب اور متوسط طبقہ ہی ہوا ہے اس لیے مارچ، اپریل، مئی اور اگلے دو ماہ بھی یعنی جون جولائی کی فیسیں ملنا بھی ممکن نظر نہیں آتاایسی صورتحال میںاسکولز منتظمین اساتذہ اور دیگر اسٹاف کے تنخواہیں اور اسکول کی عمارت کا کرایہ کس طرح ادا کیا جا سکتا ہے انہوںنے کہاکہ اس مشکل ترین صورتحال کی وجہ سے مئی میں درجنوں نجی اسکولز مکمل طور پر بند ہوچکے ہیںکیونکہ ان اسکولز کے پاس اپنے تدریسی و غیر تدریسی اسٹاف اور اسکول کی عمارت کا کرایہ ادا کرنے کے لیے سرمایہ نہیں تھا جبکہ ہم نے 12 مئی کو صوبائی وزیرِ تعلیم سندھ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے اجلاس میں تحریری تجاویز دی تھیںجن میں ان 60 فیصد تعلیمی اداروں کے بند ہونے کا خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نجی تعلیمی اداروں کو بینکوں سے تین سال کے لیے بلاسودی قرضے ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز سندھ کے اسکول رجسٹریشن سر ٹیفکیٹ کی ضمانت پر فراہم کرنے کا مطالبہ کیاگیا تھا شرف الزماںنے کہاکہ صوبائی وزیر تعلیم نے ہمارے مطالبے کے جواب میں کہاکہ بینک وفاقی حکومت کے دائرے اختیار میں آتے ہیںلہٰذا ہم نجی اسکولوں کو بینکوں سے قرضہ فراہم نہیں کراسکتے جس کی وجہ سے سندھ حکومت سے مایوس ہوکر تمام نجی اسکولز مالکان آپ سے قوم، طلباء، تعلیم اور تعلیمی اداروں کے وسیع تر مفاد میں اپیل کرتے ہیں کہ آپ ان تعلیمی اداروں کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے آگے آئیںتا کہ ہم تعلیم کو اسی طرح عام کرتے چلے آئیں جیسے کرتے چلے آرہے تھے انہوںنے کہاکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان جس طرح ملک کے دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں ہم نجی اسکولوں کے سربراہان چاہتے ہیں کہ وہ نجی تعلیمی اداروںکی مشکلات کو حل کرنے کے لئے بھی خصوصی توجہ دیںاگرآپ کی جانب سے ان 60 فیصد تعلیمی اداروں پر توجہ نہیں دی گئی تو نہ صرف یہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں گے بلکہ لاکھوں طلباء کا تعلیمی مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا جبکہ ان کے ساتھ ساتھ نجی اسکولز کے اساتذہ اور دیگر اسٹاف کی بھی ایک بہت بڑی تعداد بے روزگار ہوجائے گی جس کا نقصان یقینا ریاست پاکستان کو ہوگا ۔