قومی اسمبلی اراکین کا خام مال پرٹیرف لائن میں کمی ، صنعتی شعبے اورتعمیرات کیلئے مراعات اوراحساس پروگرام کے فنڈز اوردائرہ کارمیں توسیع کی تعریف‘ ٹیکس نظام میں بہتری، سابق فاٹا کیلئے فنڈز میں اضافہ اورسیاحت کی استعدادسے بھرپوراستفادہ کرنے کیلئے جامع اقدامات کی ضرورت پرزور

بدھ 24 جون 2020 23:15

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 جون2020ء) قومی اسمبلی کے اراکین نے خام مال پرٹیرف لائن میں کمی ، صنعتی شعبے اورتعمیرات کیلئے مراعات اوراحساس پروگرام کے فنڈز اوردائرہ کارمیں توسیع کوسراہتے ہوئے ٹیکس نظام میں بہتری، سابق فاٹا کیلئے فنڈز میں اضافہ اورسیاحت کی استعدادسے بھرپوراستفادہ کرنے کیلئے جامع اقدامات کی ضرورت پرزوردیاہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے محمد سجاد نے کہا کہ بجٹ نے غریب عوام کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا‘ سرکاری ملازمین بجٹ سے دلبرداشتہ ہیں۔ انہوں نے اپنے حلقے میں پہلے سے جاری منصوبوں پر کام دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈلہ نے کہا کہ ان حالات میں اس سے بہتر بحٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا تاہم زراعت پر توجہ دینا ضروری تھا۔

(جاری ہے)

جب تک ہم زراعت کو ترقی نہیں دیتے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے میانوالی‘ مظفرگڑھ روڈ کے لئے فنڈز مختص کرنے پر حکومت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ پانچ چھ اضلاع کی اہم سڑک ہے۔ بھکر میں چلڈرن ہسپتال‘ کارڈیک ہسپتال اور میڈیکل کالج کا قیام ضروری ہے۔ تھل کو ٹیکس فری زون بنایا جائے۔ رکن قومی اسمبلی زہرہ ودود فاطمی نے کورونا کے حوالے سے حکومتی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ اٹلی‘ جرمنی اور نیوزی لینڈ نے وباء پر قابو پانے کے بعد نرمیاں کی ہیں جبکہ پاکستان میں مرض کے پھیلائو میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کی صورتحال دگرگوں ہو چکی ہے۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے لیکن حکومت الزامات کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی۔ رکن قومی اسمبلی خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جی ڈی پی منفی گروتھ مایوس کن ہے تاہم ہمیں امید ہے کہ اللہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے گا۔ حکومت نے ٹیکس ریونیو کے لئے جو اہداف مقرر کئے ہیں ہم دعاگو ہیں کہ یہ اہداف حاصل ہو سکیں۔

احساس پروگرام کے لئے فنڈز میں اضافہ قابل تعریف ہے لیکن اب بھی ایسے مستحقین ہیں جنہیں امداد نہیں مل سکی ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچھلے سال عملی طور پر اضافہ نہیں ہوا تھا۔پچھلے سال ٹیکسوں میں ردوبدل کی صورت میں وہ اضافہ واپس لیا گیا تھا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے۔

فوڈ سیکیورٹی کے لئے بارہ ارب کے فنڈز کم ہیں۔ کپاس کی امدادی قیمت مقرر کی جائے۔ رکن قومی اسمبلی محمد خان ڈاھا نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 30 ‘ 40 سال بعد ملک میں ٹڈی دل کا حملہ ہوا لیکن حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی دیکھن یمیں نہیں آئی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں گندم اور چینی کا بحران آیا۔ جب کاشتکار نے 140 روپے میں بیچی تو اب وہ 1800 سے لے کر دو ہزار پر چلی گئی۔

یہ کسانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ گندم کی کاشت والے علاقوں میں کٹائی سے قبل بارشوں سے نقصان ہوا ہے۔ ان کسانوں کو ریلیف دیا جائے۔ گاڑیوں پر ٹیکسوں میں کمی کی جائے۔رکن قومی اسمبلی گل داد خان نے کہا کہ معاشی اور کورونا بحران میں ٹیکس فری بجٹ پر حکومت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کے لئے 48 ارب روپے کے فنڈز کم ہیں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ کم سے کم 65 ارب روپے مختص کئے جائیں۔ سابق فاٹا کے لئے این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصہ کوٹہ پر عملدرآمد کیا جائے۔ ان علاقوں میں مسائل زیادہ ہیں اور اگر ان کو حل نہ کیا گیا تو 2008ء والی صورتحال دوبارہ آسکتی ہے۔ سابق فاٹا میں سیاحت کی بے پناہ استعداد ہے۔ ان علاقوں میں سیاحت کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ مہمند ڈیم میں اتمانخیل قوم کو اراضی کے معاوضوں کے لئے کمیٹی قائم کی جائے۔

شنیلہ رتھ نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ صنعتوں کے لئے مراعات‘ ٹیرف لائنز میں کمی‘ سیمنٹ پر ایف ای ڈی میں کمی اچھے اقدامات ہیں۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ اور ہائوسنگ کو ریلیف دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نظام کو بہتر بنایا جارہا ہے۔ حکومتی اخراجات میں کمی کی جارہی ہے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کے لئے اقدامات قابل تعریف ہیں۔

حکومت درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کر رہی ہے۔ تجارتی خسارہ میں 19 ارب ڈالر کمی کی گئی ہے۔ قرضوں کی واپسی بھی موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے۔ احساس پروگرام میں وزیراعظم نے غریب لوگوں کے لئے فنڈز میں اضافہ کیا ہے۔ اس پروگرام سے کروڑوں افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے قومی کمیشن فار مینارٹیز کی تشکیل پر حکومت کو مبارکباد دی اور کہا کہ پہلی بار اس کمیشن کا چیئرمین بھی اقلیتوں سے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم نے اقلیتوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ اقلیتیں وفاقی سبجیکٹ ہونا چاہیے۔ پنجاب حکومت نے اقلیتوں کے لئے جو اقدامات کئے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ سردار محمد عرفان ڈوگر نے کہا کہ وباء اور معاشی مشکلات کے دور میں زراعت نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ اس لئے اس شعبہ پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ زمینداروں کو کھاد اور مداخل پر سبسڈی دی جائے۔

کسانوں کے لئے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے اعلان پر عملدرآمد کیا جائے۔ کسانوں کے لئے بجلی کے یکساں نرخ مقرر کئے جائیں۔ فاروق آباد انٹرچینج کے منصوبہ کو مکمل کیا جائے۔ شیخوپورہ میں کورونا ٹیسٹ کی سہولت دی جائے اور ہسپتالوں میں ادویات کی کمی کے مسئلہ کو حل کیا جائے۔ محمد اکرم چیمہ نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں نے ملک کو بابائے قوم کے اصولوں کی بجائے اپنے اصولوں پر چلایا۔

ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسا دیا۔ سودی نظام کو ختم کئے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ساٹھ فیصد ریونیو سود کی نذر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کا احتساب ضروری ہے جنہوں نے قرضے لے کر بیرون ممالک جائیدادیں بنائیں اور کاروبار کر رہے ہیں۔ ہم وزیراعظم کے مشکور ہیں جنہوں نے مشکل حالات میں غریب عوام کے ریلیف کے لئے اقدامات کئے۔

محمد اسلم خان نے کہا کہ مشکل حالات میں حکومت نے ایسا بجٹ دیا ہے جس میں تمام طبقوں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔ متوازن بجٹ پیش کرنے پر میں حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں بھی قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا تاہم اس میں اپوزیشن نے تجویز دینے کی بجائے صرف تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیویارک اور پیرس میں پی آئی اے کی پراپرٹیز سے حاصل ہونے والا پیسہ پی آئی اے کو نہیں مل رہا۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کراچی کو نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا۔