جو بائیڈن کا بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مظالم پراظہار تشویش

ڈیموکریٹس امیدوار کی جیت کے امکانات روشن ہوگئے‘50پوائنٹس حاصل کرلیئے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 29 جون 2020 13:28

جو بائیڈن کا بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مظالم پراظہار تشویش
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 جون۔2020ء) امریکا کے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے مسلمانوں کے حوالے سے اپنے منشور میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کی متنازع قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیا ہے. جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے سلسلے میں امریکا میں مقیم مسلمان برادریوں کے حوالے سے اپنے ایجنڈے میں کہا ہے کہ بھارت کی حکومت کو کشمیر کے عوام کے حقوق بحال کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے چاہیئیں‘انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج کو روکنے، انٹرنیٹ کو بند کرنے یا سست کرنے جیسے اقدامات سے بھارت میں جمہوریت کمزور ہوئی ہے.

امریکی صدارتی امیدوار نے کہا کہ بھارت کی حکومت کی جانب سے آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن اور سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) متعارف کروانا مایوس کن ہے‘انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات سیکولرازم، کثیراللسانی اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ملکی روایت کے بھی خلاف ہے. مسلمانوں کے حوالے سے اپنے ایجنڈے میں انہوں نے کہا کہ امریکی مسلمان مسلم اکثریتی ممالک اور دیگر ممالک میں موجود مسلمانوں کے حوالے سے تشویش رکھتے ہیں جو بائیڈن نے کہا کہ مغربی چین میں لاکھوں ایغور مسلمانوں کی جبری گرفتاری بھی قابل توجہ ہے.

انہوں نے کہا کہ میں صدر بن گیا تو سنکیانگ میں حراستی کیمپوں کے خلاف آواز اٹھاﺅں گا اور ظلم کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا‘امریکی صدارتی امیدوار نے کہا کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ریاستی امتیاز اور مظالم سے امن و استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے. امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی ہندوﺅں کے ایک گروپ نے جو بائیڈن کی مہم میں مسلمانوں سے متعلق اپنے ایجنڈے میں بھارت کے خلاف بیان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے انہوں نے جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ اس بیان پر نظرثانی کریں اور مطالبہ کیا کہ اسی طرح کا ایجنڈا امریکی ہندوﺅں کے لیے بھی جاری کردیں.

تاہم جو بائیڈن کی مہم کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا خیال رہے کہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کے لیے جہاں ٹرمپ اور ان کے حریف جو بائیڈن ایک دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں وہیں مختلف برادریوں کی حمایت کے لیے بھی سرگرم ہیں. بھارت نے گزشتہ برس اگست میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش سمیت تمام بنیادی حقوق کو سلب کرلیا تھا جس کے باعث کشمیریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے بعد ازاں دسمبر میں متنازع شہریت قانون متعارف کروایا گیا جس کے خلاف مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا جبکہ غیر جانب دار حلقوں کی جانب سے بھی اس قانون لو امتیازی قرار دیا گیا اور مسلمانوں کے موقف کی حمایت کی گئی.

بھارتی حکومت نے رواں برس کے اوائل میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل قانون کو تبدیل کرکے مقامی آبادی کو حاصل اختیارات واپس لے لیے جس کو پاکستان اور کشمیریوں نے مسترد کردیا تھا. ادھر رائے عامہ کے نئے جائزوں کے مطابق، صدر ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کو معمر افراد کی زیادہ حمایت حاصل ہے، حالانکہ پچھلے صدارتی انتخاب میں بڑی عمر کے لوگوں کے ووٹوں سے ری پبلکن پارٹی کو فتح حاصل ہوئی تھی.

مئی میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ انسولین کی قیمتیں بڑھنے سے روک رہے ہیں اس اعلان کا مقصد معمر افراد کو خوش کرنا تھا۔

(جاری ہے)

ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس منصوبے میں شامل ہونے والوں کو35ڈالر ماہانہ میں انسولین کی تمام خوراکیں ملا کریں گی. امریکہ کی بعض ریاستوں میں کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے ان میں فلوریڈا اور ایری زونا کی ریاستیں شامل ہیں یہاں پر سینیرز کی تعداد بھی کافی ہے ماضی میں یہ ووٹرز ٹرمپ کی پالیسیوں کو پسند کرتے تھے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، اب ایسا نظر نہیں آرہا‘شہری نظم و نسق میں گڑ بڑ، نسلی نا انصافیوں کے اوپر تلے واقعات اور کرونا وائرس کی وبا نے رائے عامہ کو کافی تبدیل کیا ہے.

نیویارک ٹائمز کے مطابق سائنا کالج کی جانب سے معمر افراد سے لیے گئے ایک جائزے میں ٹرمپ کو بائیڈن کے مقابلے میں جزوی سبقت حاصل تھی، جبکہ دو اور جائزوں میں بائیڈن کو8 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی وائٹ ہاﺅس ان جائزوں کو گمراہ کن قرار دیتا ہے‘کوئینیپیک یونیورسٹی میں رائے عامہ کے جائزوں کے ماہر ٹم میلاوے کہتے ہیں یہ جائزے ٹرمپ کے حق میں نہیں ہیں اور نومبر کا صدارتی انتخاب قریب تر ہوتا جا رہا ہے.

بہت سے معمر افراد نے فیصلہ کر لیا ہے نبراسکا سے تعلق رکھنے والی ایک معمر خاتون کا کہنا ہے کہ میں ایسا صدر چاہتی ہوں جس کو اپنے سے زیادہ عوام کا خیال ہو وہ صرف اپنے کاروبار اور اپنے اقتدار کا بھوکا نہ ہو مگر اب بھی معمر افراد کی ایک معقول تعداد ٹرمپ کے حق میں ہے ٹرمپ کے حامی ایک شخص کا کہنا ہے کہ ٹرمپ جو کچھ کر رہے ہیں، میں اس سے سو فی صد متفق نہیں ہوں لیکن میری نظر میں وہ صحیح معنوں میں سیاست دان ہیں.

بہرحال نوجوانوں کی طرح معمر افراد کا ووٹ بھی اہمیت رکھتا ہے یونیورسٹی آف ایری زونا کے پروفیسر تھامس والگے کہتے ہیں کہ اگر حاضر صدر کو چیلنج کرنے والے کو پچاس فی صد پوائنٹس مل جائیں تو پھر اس کے ہارنے کے امکان بہت کم ہو جاتے ہیں بائیڈن کو اتنے پوائنٹس مل چکے ہیں. تاہم آنے والے چار مہینوں میں بہت کچھ بدل سکتا ہے رائے عامہ کے جائزے حرف آخر نہیں ہوا کرتے اور نہ وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں سو آنے والے دنوں میں امریکہ کی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کی پیش گوئی ممکن نہیں ہے تاہم اگر معمر امریکیوں کی موجودہ رائے تبدیل نہیں ہوتی تو پھر ان کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے.