دہلی فسادات: جے شری رام کے نعرے نہ لگانے پر 9مسلمانوں کو قتل کیا گیا

مسلمانوں کے قتل عام اور املاک کو لوٹے جانے پر دہشت گردوں کی مددکرنے والی پولیس کی تحقیقات ناقابل قبول ہیں. مسلمان تنظیموں کا ردعمل

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 4 جولائی 2020 16:33

دہلی فسادات: جے شری رام کے نعرے نہ لگانے پر 9مسلمانوں کو قتل کیا گیا
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 جولائی ۔2020ء) رواں سال دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات کی چارج شیٹ پولیس نے عدالت میں جمع کرادی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آرایس ایس کے دہشت گردوں نے”جے شری رام“ کے نعرے نہ لگانے پر مسلمانوں پر حملہ کر کے 9 افراد کو قتل کردیا تھا. بھارتی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق قتل یے گئے 9افراد میں سے ایک حمزہ کے قتل کے سلسلے میں گوکال پوری پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کی چارچ شیٹ پر پولیس نے کہا کہ دہلی میں فسادات کے دوسرے دن 25فروری کو ”کٹر ہندو ایکتا“ کے نام سے انتہا پسند ہندوﺅں نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا تھا.

(جاری ہے)

دہلی پولیس کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی چارج شیٹ میں پولیس نے انکشاف کیا کہ واٹس ایپ پر ایک دوسرے سے رابطے میں موجود ان انتہا پسند ہندوﺅں سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا کہا گہا اور ایک دوسرے کو لوگ، ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرنے کا کہا گیا دہلی پولیس نے دہلی میں پرتشدد واقعات کے سلسلے میں قتل کیے گئے تین افراد امین، بھورے علی اور حمزہ کے معاملے میں تین چارج شیٹ داخل کی ہیں.

ان چارج شیٹ میں فسادات بھڑکانے اور قتل کے لیے 9 افراد پر الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں لوکیش سولنکی، پنکج شرما، انکت چوہدری، پرنس، جیتن شرما، ہمانشو ٹھاکر، وکاس پانچال، ریشبھ چوہدری اور سیت چوہدری شامل ہیں‘چارج شیٹ میں کہا گیا کہ واٹس ایپ گروپ بنانے والا ملزم اب بھی مفرور ہے اور پولیس نے 26 اور 27فروری کی رات واٹس ایپ گروپ پر مبینہ طور پر لوکیش کے کچھ پیغامات کا حوالہ دیا ہے.

اس حوالے سے بتایا گیا کہ لوکیش نے مبینہ طور پر پہلا پیغام 11 بجکر 39منٹ پر بھیجا جس میں کہا گیا کہ ”بھائی میں گنگا وہاڑ سے لوکیش سولنگی، اگر کوئی وقت ہو یا لوگوں کی کمی ہو تو مجھے بتاﺅ، میں پوری گنگا وہاڑ ٹیم کے ساتھ آ جاﺅں گا ، ہمارے پاس سب کچھ ہے، گولیاں بندوق سب کچھ موجود ہے‘اس کے بعد 11 بجکر 44منٹ پر سولنکی نے گروپ میں پھر پیغام بھیجا کہ رات 9بجے کے لگ بھگ وہار کے پاس تمہارے بھائی نے دو مسلمانوں کو مار دیا اور انہیں اپنی ٹیم کی مدد سے نالے میں پھینک دیا، ونے تمہیں پتہ ہے ناں تمہارا بھائی ہمیشہ اس طرح کے کام میں آگے رہتا ہے.

چارج شیٹ کے مطابق یہ گروپ 25دسمبر کو رات 12 بجکر 49منٹ پر بنایا گیا، شروعات میں گروپ میں 125 ممبر تھے لیکن 8مارچ 2020 کو 47لوگوں نے گروپ چھوڑ دیا پولیس نے اس واٹس ایپ شیٹ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم اور ان کے معاونین مشتعل تھے کیونکہ ہندو کو نشانہ اور مسلمانوں کے ذریعے مارے جانے کی خبریں ہر طرف عام تھیں. انہوں نے ہندوﺅں پر حملہ کرنے پر مسلمانوں کو سبق سکھانے کی سازش کی اور لاٹھی، ڈنڈے، چھڑی، تلوار اور بندوق وغیرہ کے ساتھ گلیوں میں گھومنے لگے ان کا واضح مقصد مسلمانوں کے گھر، جائیداد، مساجد جلانے اور تباہ کرنے کا تھا، ان کا مقصد لوگوں کو پکڑ کر ان کا نام، پتہ پوچھ کر، آئی ڈی دیکھ کر ان کے مذہب کا پتہ لگانا تھا.

چارج شیٹ کے مطابق انہوں نے کئی مرتبہ لوگوں سے جے شری رام کے نعرے بھی لگوائے، جن لوگوں نے نعرے نہیں لگائے یا جو جانچ میں مسلمان پائے گئے، ان کا قتل کر کے لاش کو باگیرتھی وہاڑ نالے میں پھینک دیا گیا‘پولیس نے کہا کہ مذکورہ ملزمان نے دنگائیوں کے ساتھ مل کر 9مسلمانوں کا قتل کیا اور کئی کو زخمی بھی کیا. عدالت کی جانب سے ابھی اس چارج شیٹ کا اندراج باقی ہے اور ملزمان اپنے وکیل کے ذریعے الزامات کا جواب دیں گے، عدالت کی جانب سے چارج شیٹ کے ادراک کے بعد ملزمان کے وکلا عدالت میں پیش ہوں گے‘دہلی پولیس اب تک فسادات کے سلسلے میں کم از کم 111چارج شیٹ فائل کر چکی ہے جس میں 650افراد کے نامم شامل تھے.

بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر 2019 سے مظاہرے کیے جا رہے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورہ بھارت کے دوران 24 فروری کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اچانک یہ مظاہرے مذہبی فسادات کی شکل اختیار کر گئے تھے مذہبی فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ہزاروں افراد نے نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کیا اور متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد پر اچانک انتہاپسند اور شرپسند افراد نے حملہ کردیا جس کی وجہ سے مظاہرے مذہبی فسادات میں تبدیل ہوگئے.

ان فسادات کے دوران کم از کم 53افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جبکہ دہلی میں مسلمانوں کی آبادی کو بڑی تعداد میں نشانہ گیا بھارتی سپریم کورٹ نے متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پولیس اپنا فرض ادا کرتی تو مشتعل افراد بچ نہیں سکتے تھے. ادھر مسلمان تنظیمیوںکا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کی بنائی گئی رپورٹس پر کوئی بھروسہ نہیں کیونکہ جب آرایس ایس کے دہشت گرد مسلمانوں کو قتل کررہے تھے‘ان کی املاک کو لوٹا کر جلایا جارہا تھا اس وقت یہی پولیس ان کی مدد کررہی تھی ا س لیے پولیس کی تحقیقات ناقابل قبول ہیں.