ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کرنا پاکستان کی مجبوری ہے،شاہ محمود

ترامیم کے لئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے کردار کا اعتراف کرتا ہوں، کاش دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی ایسا ہی رویہ دکھاتیں جو دو بڑی جماعتوں نے دکھایا، مشترکہ اجلاس سے خطاب

جمعرات 6 اگست 2020 22:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 اگست2020ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ جب تک پانچ اگست کے فیصلے واپس نہیں ہوتے بھارت سے بات نہیں ہوسکتی،ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کرنا پاکستان کی مجبوری ہے،ترامیم کے لئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے کردار کا اعتراف کرتا ہوں، کاش دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی ایسا ہی رویہ دکھاتیں جو دو بڑی جماعتوں نے دکھایا ،میرے پائوں میں مہندی نہیں لگی میں اپوزیشن لیڈر چیمبر میں جانے کو تیار ہوں ،شہبازشریف اور بلاول آگے بڑھیں آئیں تجاویز دیں ہم قابل عمل تجاویز پر عمل کرنے کو تیار ہیں ۔

جمعرات کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اپوزیشن کا تعاون پر شکریہ ادا کرتا ہوں ،دونوں بڑی جماعتوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ،ایف اے ٹی ایف کی شرائط پہ عمل کرنا پاکستان کی مجبوری ہے ،پاکستان کا گرے لسٹ میں ہونا ورثے میں ملا ،بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنا چاہتا تھا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ ایف اے ٹی ایف کے آخری اجلاس میں عالمی برادری نے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا لیکن انہیں پاکستان سے کچھ مزید ترامیم درکار تھیں ،ترامیم کے لئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے کردار کا اعتراف کرتا ہوں ،آپ نے یہ حکومت کے لئے نہیں پاکستان کے لئے کیا۔

انہوںنے کہاکہ کاش دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی ایسا ہی رویہ دکھاتیں جو دو بڑی جماعتوں نے دکھایا ،حکومتیں مسئلہ کشمیر پہ ہمیشہ یکسوئی دکھاتی رہی ہیں ،متفقہ قرارداد کی منظوری کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لئے خاص پیغام تھا ،اظہار پہ کوئی پابندی نہیں ہے ان دو معاملات پہ کاروائی پہ ہم آہنگی تھی ،اس کے بعد جو قائدین بات کرنا چاہتے وہ کر سکتے تھے ،بل کو اسٹریم رول نہیں لیا گیا ،گھنٹوں ایک ایک جملے پہ مشاورت کی گئی ،جن شقوں پہ اتفاق رائے نہیں تھا وہ پیدا کیا ،ہم نے اتفا رائے کیا اسٹریم رول تب ہوتا اگر اپنا فیصلہ اپوزیشن پہ مسلط کرتے۔

انہوںنے کہاکہ وہ حریت لیڈرشپ بھی اب پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایل او سی کی خلاف ورزیوں پہ اعلی سطحی فورمز پہ مراسلے بھیج کر احتجاج رکارڈ کرایا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ صرف کورونا کے چار ماہ میں چالیس وزرائے خارجہ سے مسئلہ کشمیر اور ایل او سی پہ بات کی ہے،پاکستان رد عمل میں صرف بھارت کی ملٹری چیک پوسٹس کو نشانہ بناتا ہے،پاکستان نے سرحد کے ساتھ پاکستانی خاندانوں کے لئے بنکرز بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

انہوںنے کہاکہ میں نے چالیس وزرائے خارجہ سے بات کی ہے ،ایل او سی پر جواب دیتے ہوئے احتیاط کرنا پڑتی ہے کہ دوسری طرف بھی ہمارے ہی کشمیری ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایل او سی کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بھارتی فائرنگ سے بچنے کے لئے بنکرز بنا کر دے رہے ہیں۔ انہوںے کہاکہ آپ بھارت کی اپوزیشن سے پوچھیں کہ وہ کشمیر پر مودی کو کیا کہہ رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ آج وہ مودی کو ہندوتوا سوچ کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ،آج بھارتی اپوزیشن مودی کو انڈیا کی بجائے ہندوا قرار دے رہی ہے ،میں اپوزیشن لیڈر اور بلاول کو بریفنگ کیلئے کیسے دعوت دیتا،خط لکھ کر دعوت دی،وہ خط سامنے لاسکتا ہوں۔

انہوںنے کہاکہ میرے پائوں میں مہندی نہیں لگی میں اپوزیشن لیڈر چیمبر میں جانے کو تیار ہوں ۔ انہوںنے کہاکہ ایک ایپکس کمیٹی بنائی ہے ،اس کمیٹی میں عسکری اور سیاسی ادارے سب شامل ہیں ،آپ خود کہتے ہیں جنگ کوئی حل نہیں۔ انہوںنے کہاکہ بھارت تو گھس بیٹھئے کا بیانیہ چاہتا ہے ،ہم بھارت کو بیانیہ میں شکست دے رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جب تک پانچ اگست کے فیصلے واپس نہیں ہوتے بھارت سے بات نہیں ہوسکتی۔

انہوںنے کہاکہ کئی مواقع ایسے تھے جن پر بھارت سے بات ہوسکتی تھی نہیں کی۔انہوںنے کہاکہ پانچ اگست کے اقدام کے بعد پاکستان خاموش نہیں رہا ،بھارت مودی کے اقدامات کی وجہ سے جتنا تنہا آج ہے کبھی نہیں تھا ،آپ کہتے کچھ نہیں ہوا پوچھیں بھارتی سابق وزیر چند برم سے جو کہتے مودی تمہاری کشمیر پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ شہبازشریف اور بلاول آگے بڑھیں آئیں تجاویز دیں ہم قابل عمل تجاویز پر عمل کرنے کو تیار ہیں انہوںنے کہاکہ آپ نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے کریں،خارجہ پالیسی ہوامیں نہیں بنتی ،آج پاکستان کو ڈومور کوئی نہیں کہہ رہا۔

انہوںنے کہاکہ آپ تو کہتے تھے عمران خان طالبان خان ہے ،عمران خان کا موقف درست ثابت ہوا اور آپ کی سوچ محدود ثابت ہوئی۔ انہوںنے کہاکہ آج امریکی وزیر خارجہ پومپیو ملا عبدالغنی برادر سے ملتا ہے ،یہ عمران خان کے موقف کی تصدیق ہے۔ انہوںنے کہاکہ شملہ معاہدے کو پس پشت کس نے ڈالا ہم نہیں بھارت نے۔ انہوںنے کہاکہ مودی سن لو ہم تمہیں بلا ویزا آنے کی اجازت نہیں دیں گے ،ہم مودی تمہیں ساڑھیاں کا تحفہ نہیں دیں گے ،ہم بھارت سے کاروبار نہیں کریں گے۔