افغانستان میں امن کوششیں، پاکستان میں بدامنی؟

DW ڈی ڈبلیو منگل 27 اکتوبر 2020 16:20

افغانستان میں امن کوششیں، پاکستان میں بدامنی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اکتوبر 2020ء) دارالحکومت اسلام آباد سے قریب 170 کلو میٹر مغرب کی طرف شہر پشاور کے اس مدرسے میں عین اس وقت ایک بم دھماکا ہوا جب قریب بیسیوں بچے وہاں قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ پشاور کے ایک سینیئر پولیس افسر وقار اعظم نے بتایا، ''یہ دھماکا اس مدرسے میں عین اس وقت ہوا جب وہاں بچے قرآن پڑھ رہے تھے۔

ایک شخص مدرسے کی اس کلاس میں داخل ہوا اور اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تھیلا تھا۔‘‘ اس پولیس افسر نے مزید کہا، ''یہ شخص اس کلاس روم میں یہ تھیلا چھوڑ کر دھماکے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گیا تھا۔‘‘

ایک اور سینیئر پولیس افسر محمد علی گنڈا پور نے بتایا کہ اس دھماکے میں سات افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔

(جاری ہے)

دوسری طرف ایک مقامی ہستال کے ترجمان محمد عاصم خان نے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس ہسپتال میں ہلاک ہونے والے سات افراد کی لاشیں اور 70 زخمیوں کو لایا گیا۔

ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی عمریں 20 اور 40 سال کے درمیان تھیں۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں کے جسم بری طرح جھلس گئے تھے۔

اس مدرسے کے ایک استاد سیف اللہ خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مدرسے میں ایک ہزار سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں اور انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گروپ 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے طلبا پر مشتمل ہے جبکہ دوسرے گروپ میں 18 سال سے کم عمر کے نوجوان اور بچے شامل ہیں۔

سیف اللہ خان نے کہا کہ بم دھماکے سے دونوں گروپوں کے لیے بنائے گئے حصوں کی درمیانی دیوار گر گئی۔ اس مدرسے میں جاری درس کی لائیو اسٹریمنگ میں دیکھا جا سکتا تھا کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب مدرسے کے ایک استاد عربی اور پشتو میں ایک حدیث بیان کر رہے تھے۔

تشویش کی لہر

اس دہشت گردانہ واقعے کے فوراً بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں اظہار تعزیت کیا۔

وزیر اعظم نے لکھا، ''میں پاکستانی قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اس بزدلانہ اور وحشیانہ حملے کے ذمہ دار عناصر کو ہر حال میں انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘‘

یہ تا حال معلوم نہیں ہو سکا کہ اس مدرسے کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اب تک کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔ تاہم اس واقعے نے از سر نو اس تشویش میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے کہ ایک عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی کے بعد اب ایک بار پھر افغانستان سے جڑے ہوئے علاقوں کے شہروں اور قصبوں میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے عناصر کون ہو سکتے ہیں؟

خاص طور سے اگر اس تناظر میں دیکھا جائے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں ملٹری آپریشنز کا ایک پورا سلسلہ جاری رہا اور فوج نے دہشت گردوں اور ان کی پھیلائی ہوئی شورش پر قابو پانے کا دعویٰ بھی کیا، اس کے باوجود عسکریت پسند گروپ اب بھی ملک میں جان لیوا حملے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

سرحدی علاقے پھر سے مسلح گروپوں کا ہدف

حالیہ مہینوں میں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے اتحادی جنگجوؤں نے مقامی باشندوں اور ملکی سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ مسلح گروہ دوبارہ سرحدی علاقوں میں قدم جما سکتے ہیں۔

چند برس پہلے تک افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقے القاعدہ اور طالبان کا گڑھ تصور کیے جاتے تھے۔

سن دو ہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد عسکری گروہوں کے لیے یہ علاقے محفوظ پناہ گاہیں بن گئے تھے۔ پھر سن دو ہزار چودہ میں پاکستانی فوج نے وہاں اپنے آپریشن شروع کیے اور بڑی حد تک ان علاقوں سے طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانے صاف کر دیے۔ نتیجتاﹰ کئی جنگجو افغانستان فرار ہو گئے تھے۔ لیکن اس سال مارچ سے افغانستان میں موجود داعش اور القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ شاید وہاں جنگ بندی کی کوششیں کامیاب ہونے سے ان کا وہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ان گروہوں نے اب پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان، جو کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی، نے بظاہر پاکستانی قبائلی علاقوں میں دوبارہ قدم جمانے شروع کر دیے ہیں۔

حملوں میں نمایاں اضافہ

جولائی میں ٹی ٹی پی نے تقریباﹰ چھ مقامی مسلح گروہوں کے ساتھ اتحاد کیا۔

اسلام آباد میں فاٹا ریسرچ سینٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر منصور خان محسود کا کہنا ہے، ’’اس گروپ کی صلاحیت، عسکری طاقت اور اس کے دائرہ کار میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔‘‘ ستمبر کے مہینے میں تقریباﹰ ہر روز ہی کہیں نہ کہیں حملے ہوئے تھے۔ کبھی سڑک کنارے بم نصب کیے گئے، کبھی سنائپر حملے ہوئے اور کبھی گھات لگا کر سکیورٹی فورسز اور حکومت کے قریب سمجھے جانے والے مقامی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں مارچ کے بعد سے کم از کم 40 پاکستانی فوجی اور افسران مارے جا چکے ہیں۔ اسی طرح جنوری سے جولائی کے درمیان 67 حملے ہوئے اور ان میں 109 شہری بھی مارے گئے۔ فاٹا ریسرچ سینٹر کے مطابق سن دو ہزار انیس کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی ہے۔

واشنگٹن میں قائم سٹیمسن سینٹر کے پروگرام برائے جنوبی ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر الزبتھ تھرکلیلڈ ماضی میں امریکی وزارت خارجہ سے منسلک رہ چکی ہیں اور پاکستان میں بھی کام کر چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’ٹی ٹی پی کا دوبارہ قدم جمانا دو طرح سے پریشان کن ہے۔ ایک تو اس کی اپنی کارروائیاں باعث تشویش ہیں اور دوسرا اس کے القاعدہ جیسے گروہوں سے بھی روابط ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے، ’’اگر یہ گروپ دوبارہ ان علاقوں پر کنٹرول حاصل کرتا ہے تو یہ بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کو اہم مدد فراہم کر سکتا ہے۔‘‘

افغان امن مذاکرات کے اثرات

سیاسی ماہرین کی رائے میں افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں کا ایک غیر ارادی نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بدامنی بڑھ جائے۔

امریکا کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان طالبان نے یہ گارنٹی دی ہے کہ وہ افغانستان میں غیر ملکی شدت پسندوں کی پناہ گاہیں ختم کر دیں گے۔

اقوام متحدہ نے جولائی میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق افغانستان میں تقریباﹰ چھ ہزار پاکستانی جنگجو موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے۔ اس رپورٹ میں خطرہ ظاہر کیا گیا تھا کہ افغانستان میں پناہ گاہیں ختم ہونے کی صورت میں یہ شدت پسند واپس پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں ایک مغربی سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے، ''یہ صورت حال سبھی کے لیے پریشان کن ہے۔‘‘ پاکستانی فوج نے حال ہی میں ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ بڑھتے ہوئے حملے ’افغانستان میں امن بات چیت کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش ہیں‘۔

افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں لوگوں کے لیے حالات پریشان کن ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک بیان میں عام لوگوں کو متنبہ کیا تھا، ''جب تک امن قائم نہیں ہو جاتا، آپ یہ علاقہ چھوڑ دیں۔ پاکستان کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے اور آپ کو روزانہ ایسے حملے دیکھنے کو ملیں گے۔‘‘

ک م، ا ا / م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)