ْکراچی،شہرقائد میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت،طلب کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ پیش

عدالتی حکم پر عمل درآمد کررہے ہیں معذرت چاہتا ہوں اگر درست رپورٹ پیش نہیں کرسکے، وزیراعلیٰ سندھ ہمیں آپ کی معذرت کی ضرورت نہیں ،حکم پر عمل در آمد کی رپورٹ دیں ، سارا حکم نامہ ابھی پڑھ کر سنایا گیا ،بتائیں کچھ بھی عمل نہیں ہوا، کراچی کے شہری تو گائوں میں رہتے ہیں سارا شہر گائوں میں تبدیل ہوگیا ، نہ سڑکیں ہیں نہ پانی نہ پارک نہ میدان کچھ بھی نہیں ،کراچی کو قبرستان بنادیا، گلیوں میں اونچی اونچی عمارتیں بناکر پورا شہر تباہ کردیا گیا ،شہرپر فاتحہ پڑھنا شروع کردیں ، جو کچھ مردم شماری میں ہوا سب نے دیکھا ، حکومت کی منظوری سے شہر میں غیرقانونی تعمیرات ہوئیں، لوگوں سے پیسے لے کر ساری بلڈنگز بنوا دی گئیں، چیف جسٹس گلزار احمد اب آپ پر چارج فریم کر کے آپ کو سن لیتے ہیں، اب آپ کو جیل بھیج دیں گے، آپ کو پتہ ہی نہیں کراچی کے مسائل کیا ہیں، رپورٹ نہ پیش کرنے پر عدلت کا کمشنر کراچی پر شدید برہمی کااظہار اب رفاہی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دے رہے،ڈی جی ایس بی سی اے کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے آپ اب کچھ نہیں کرسکتے، کام کرنے والے ملک چھوڑ کر چلے گئے، آپ کو لوگ بیچ کرکھا گئے ہونگے، آپ کے جعلی دستخط چل رہے ہوں گے، میڈیا سے پتا چلا ہے وزیر نے آپ کو بلڈنگ لینڈ منظور کرنے کا حکم دیا ہے،چیف جسٹس کا ڈی جی ایس بی سی سے مکالمہ پورا بندر روڈ خراب کردیاگیا ، شہر کے بیچ میں بنانے کا کوئی جواز نہیں تھا انڈر گرائونڈ بناتے ، اربوں روپے لگا دیئے ، اس شہر کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت تھی ، مین سڑکیں تباہ کردیں ، دو دو تین تین لینز خراب کردیں ، سچ بات یہ ہے آپ نے شہر کو تباہ کردیا ہے اگر کچھ کرنا تھا تو رنگ روڈز بناتے،آئی ڈی سی ایل کے چیف آپریٹنگ آفیسرکے جواب پرچیف جسٹس کے ریمارکس عدالت کا ریلوے کی زمینوں پر قائم قبضے ختم کرانے اور تمام زمینیں واگزار کرانے کا حکم ریلوے خود آپریشن کرے اور تمام اراضی واگزار کرائے، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ آپریشن میں مدد کریں اور سیکورٹی دیں، چیف جسٹس کسی کو غیرقانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دیں گے آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی، وزیربلدیات ناصر شاہ وزیرِ اعلی سندھ کی رپورٹ پیش کرنے کیلئے عدالت سے 2 ہفتوں کی مہلت طلب ،عدالت نے ایک ماہ کی مہلت دیکر سماعت ملتوی کردی

منگل 29 دسمبر 2020 17:16

ْکراچی،شہرقائد میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت،طلب کرنے ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 دسمبر2020ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہاہے کہ کراچی کو قبرستان بنادیا، گلیوں میں اونچی اونچی عمارتیں بناکر پورا شہر تباہ کردیا گیا ،اس شہرپر فاتحہ پڑھنا شروع کردیں ، جو کچھ مردم شماری میں اس شہر کے ساتھ کیا ہے سب نے دیکھا ، حکومت کی منظوری سے شہر میں غیرقانونی تعمیرات ہوئی ہیں، لوگوں سے پیسے لے کر ساری بلڈنگز بنوا دیں۔

منگل کوسپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں شہرقائد میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران رپورٹ نہ پیش کرنے پر کمشنر کراچی نوید احمد شیخ پر شدید اظہارِ برہمی کیا جبکہ وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ کو فوری پیش ہونے کا حکم دیا۔وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ فوری پیش ہو گئے۔

(جاری ہے)

وزیر تعلیم سعید غنی، مرتضی وہاب وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ، امتیاز شیخ، صوبائی وزیر ایکسائز مکیش کمار چائولہ، مشیر جیل خانہ جات اعجاز جاکھرانی، صوبائی وزیر شہلا رضا بھی وزیرِ اعلی سندھ کے ہمراہ تھے۔

وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے عدالت سے 2 ہفتوں کی مہلت مانگی،جس پر عدالت نے وزیرِاعلی سندھ کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔قبل ازیں سماعت کا آغاز ہواتو ڈی جی ایس بی سی اے، ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، کمشنر کراچی اور دیگر حکام پیش ہوئے۔سماعت کا آغاز ہواتوچیف جسٹس آف پاکستان نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ بتائیں عدالتی احکامات پر کتنا عمل درآمد ہوا کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ میری ابھی تعیناتی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تیاری کر کے آنا چاہیئے تھا، ان لوگوں کو پتہ نہیں کیوں ہمارے سامنے پیش ہونے کے لیے بھیج دیتے ہیں، ان کو کیا معلوم کہ شہر والوں کی کیا ضروریات ہیں چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے مئی 2019 کا آرڈر پڑھا ہی کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کر دی تھیں۔

چیف جسٹس نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آگے کسی اور کو کہہ دیا ہوگا، شہر میں بتائیں کیا کام ہوا ۔ وزیرِ اعلی سندھ کو بلوالیں، ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بتا دیتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں رہنے دیں، وزیرِاعلی سندھ کو بلوا لیں۔چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ کڈنی ہل پارک کی صورتِ حال بتائیں۔

میونسپل کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ کڈنی ہل پارک سے تجاوزات ختم کرا دی ہیں، نئی مسجد کی تعمیرات کا کام ہو رہا تھا جو رکوا دیا ہے، اس کی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں ہے رپورٹ آپ خود گئے تھے وہاں عدالتی احکامات پر عمل درآمد ہوا ہی چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ہمیں باقی شہر کا بتائیں کل کیا کام ہوا ہے وہ بتائیں، ساری بلڈنگز اپنی جگہ پر ویسے ہی بنی ہوئی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موہتہ پیلس کے سامنے زمینوں پر کسی نے جعلی کاغذ بنا کر قبضہ کرلیا ہے ، کمشنر کراچی صاحب کسی دور میں وہاں بچے کھیلتے تھے جائے وہ زمین وا گزار کرائیں، شہر کی بلڈنگز ابھی تک اپنی جگہوں پر ہے، آپ نے کونسی عمارت گرائی بتائیں، کھوڑی باغیچہ کا کیا حال ہے، لیاری کا حال آپ نے دیکھا ہے، لیاری اور گارڈن سے پلے گرائونڈ پارک ختم ہوچکے ہے، باغ ابن قاسم کی کیا پوزیشن ہی وہاں ایک بڑی بلڈنگ بنی ہوئی ہے اس کا کیا ہوا وہ پلاٹ کس کا ہے 4000 گز کے پلاٹ پر بلڈنگ کس کی ہی ، جائے اپنی زمین خالی کراکر کل رپورٹ دیں، جائیں جاکر قبضہ ختم کرائیں ، آپ کو ان ہی سے لڑنا ہے چھوٹے موٹے پتھارے والوں کو چھوڑیں۔

چیف جسٹس نے کڈنی ہل کی زمین واگزار کرانے کے معاملے پر کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل تک کڈنی ہل زمین کلیئر نہ ہوئی تو جیل بھیج دیں گے ، تجاوزات کا مکمل خاتمہ کرکے رپورٹ دیں، اگر کل تک عمل درآمد نہ ہوا تو جیل بھیجنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے ایس بی سی اے کے ڈی جی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب کو نظر آتا ہے آپ لوگوں نے کراچی کے ساتھ کیا کیا ہے، افسران کی تو موج ہی موج ہے، اس شہر کو قبرستان بنادیا ہے، گلیوں میں اونچی اونچی عمارتیں بنا دیں پورا شہر تباہ کردیا ، فاتحہ پڑھنا شروع کردیں اس شہر پر ، کوئی امریکا کوئی لندن اور کینیڈا میں بیٹھا ہے ، آپ بھی کل چلے جائیں گے امریکا تباہ کردیں اس شہر کو، جو کچھ مردم شماری میں اس شہر کے ساتھ کیا ہے سب نے دیکھا ، حکومت کی منظوری سے شہر میں غیرقانونی تعمیرات ہوئی ہیں، لوگوں سے پیسے لے کر ساری بلڈنگز بنوا دیں، سب کو ماردیں گے آپ لوگ ابھی سے فاتحہ پڑھ دیں کروڑوں لوگوں پر ، یہ شہر تو اب پرائیویٹ لوگوں کا ہوگیا سب نے اپنی مرضی کے علاقے بنالیے ، غریبوں نے ساری زندگی کی جمع پونجی لگا دی غیر قانونی زمینیں بیچ دی آپ لوگوں نے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات موجود ہیں، غیر قانونی تعمیرات کرنے والے 90 فیصد لوگ شہر چھوڑ کر جاچکے ہیں، اب کس کو پکڑیں گے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بڑے مافیاز ہیں، ایک ایک پلاٹ کئی کئی لوگوں کو الاٹ ہوئے، رفاہی پلاٹوں پر بھی تعمیرات ہوئیں لیکن کوئی روکنے والا نہیں، ایک دن یہ شہر زمین بوس ہوجائے گا اور ایک کروڑ 40 لاکھ لوگ اس دنیا سے چلے جائیں گے۔

چیف جسٹس نے کمشنرکراچی پراظہارِ ناراضی کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ پر چارج فریم کر کے آپ کو سن لیتے ہیں، اب آپ کو جیل بھیج دیں گے، آپ کو پتہ ہی نہیں کراچی کے مسائل کیا ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمشنر کراچی کو کیا معلوم ہو گا، آپ دو دو مہینے کیلئے کمشنر لگاتے ہیں، ہمیں وزیرِ اعلی بتائیں گے کہ کتنا عمل ہوا یہ بیچارے افسران کیا بتائیں گی ان کو تو خود کچھ معلوم نہیں کہ کراچی میں کیا ہو رہا ہے، کیا ضروریات ہوتی ہیں چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی سے تجاوزات ہٹانے سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرنے پر اظہارِبرہمی بھی کیا۔

کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اعلی افسران کو رپورٹ جمع کرا دی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے رپورٹ آگے پھر انہوں نے اور آگے دے دی ہوگی، آپ کو کیا صرف سیٹ گرم کرنے کیلئے بٹھایا گیا ہی چیف جسٹس پاکستان نے کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ کیا کرنا ہی کچھ نہیں جانتے ادھر ادھر کی باتیں مت کریں، آپ وزیرِاعلی سندھ کو بلائیں ہم ان سے پوچھ لیتے ہیں۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ اورچیف سیکریٹری جواب دینے سے قاصر رہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعلی سندھ نے ہمارے حکم پر عملدرآمد کیا یا نہیں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے گزارش کی کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ ہائی کورٹ میں مصروف ہے۔ وزیراعلی سندھ کے بجائے ہم ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بلا لیتے ہیں۔چیف جسٹس گلزاراحمد نے حکم دیا آپ جائیں اور وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو بلا کر لائیں۔

ہم نے وزیراعلی سندھ کو عملدرآمد کا کہا تھا اس پر کیسے کام نہیں ہوا عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ وزیراعلی کوبلائیں اورکہیں رپورٹ لے کرآئیں۔ ڈیڑھ سال پہلے حکم جاری کیا تھا اب تک عمل نہیں ہوا، کیا توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں ۔عدالت میں سماعت کے دوران سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(ایس بی سی ای)کے ڈی جی بھی موجود تھے۔

شہر کی حالت سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے عدالت نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو مولوی ہیں، ابھی سے فاتحہ پڑھ لیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم تجاوزات کے خاتمے کی کوشش کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا کریں گے بلڈوزر لے کر نکل جائیں جتنے غریب لوگ ہیں سب رل جائیں گے ، سندھ بلڈنگ کے ایک ایک آدمی کے ساتھ پورا مافیا چلتا ہے۔ڈی جی نے کہا کہ مجھے حکومت کی سپورٹ ہے کام کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اتنی کمزور سپورٹ کا ذکر کیا ہے جس کا وجود ہی نہیں ، حکومت ہوتی تو یہ حال ہوتا کراچی میں گینگ اور مافیاز کام کررہے ہیں ، پورا شہر سب تجاوزات سے بھرا ہے غیرقانونی عمارتوں کی بھرمار ہے ، سرکاری زمینیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ساری ، فارمز بنے ہوئے ہیں۔ڈی جی ایس بی سی اے نے کہاکہ غیر قانونی تعمیرات کی انکوائری کررہا ہوں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب کچھ نہیں کرسکتے، کام کرنے والے ملک چھوڑ کر چلے گئے، آپ کو لوگ بیچ کرکھا گئے ہوں گے، آپ کے جعلی دستخط چل رہے ہوں گے، آج میڈیا سے پتا چلا ہے وزیر نے آپ کو بلڈنگ لینڈ منظور کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتا ہے اگر وزیر کا حکم نہیں مانا تو آپ زیادہ دیر تک عہدے ہر نہیں رہ سکتے۔عدالتی ریمارکس کے بعد ڈی جی ایس بی سی اے نے جواب دیا کہ اب رفاہی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دے رہے، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے آپ بڑے معصوم لگ رہے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ لیاری سے لے کر ہائی وے تک کہاں، کہاں غیر قانونی تعمیرات گرائیں گے، کیا آپ نے بحریہ ٹائون دیکھا ہے، بحریہ ٹائون کو پورا ایک نیا شہر بنادیا گیا ہے، آپ سے بحریہ ٹائون میں کتنے گھروں کی اجازت لی گئی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے غیر قانونی تعمیرات گرانے سے غریب لوگوں کے گھر جائیں گے، ان غریب لوگوں نے بھی پیسے دیے ہوں گے،اس پر ڈی جی نے کہا کہ پہلے معاملے کی انکوائری ہوگی، اس معاملے میں سندھ حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا، کس کمزور حمایت کا آپ نے ذکر کردیا، آپ کے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والوں کے ساتھ پورا مافیا ہے، آئی آئی چندریگر روڈ، بندر روڈ(موجودہ ایم اے جناح روڈ)اور اطراف کی گلیوں تک بھی غیر قانونی عمارتیں قائم ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس 4 سال سے چلارہے ہیں، اب تک کچھ نہیں ہوا، ایک منزلہ عمارت کی اجازت پر کثیرالمنزلہ عمارت کھڑی کی جاری ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اتنی کمزور سپورٹ کا ذکر کیا ہے جس کا وجود ہی نہیں ، حکومت ہوتی تو یہ حال ہوتا کراچی میں گینگ اور مافیاز کام کررہے ہیں ، پورا شہر تجاوزات سے بھرا ہے غیرقانونی عمارتوں کی بھرمار ہے ، سرکاری زمینیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ساری ، فارمز بنے ہوئے ہیں۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، وزیر تعلیم سعید غنی، مرتضی وہاب وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ، امتیاز شیخ، صوبائی وزیر ایکسائز مکیش کمار چائولہ، مشیر جیل خانہ جات اعجاز جاکھرانی، صوبائی وزیر شہلا رضا سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

دورانِ سماعت وفاقی ادارے کے آئی ڈی سی ایل کے چیف آپریٹنگ آفیسر عدالتِ عظمی میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی ادارے نے کوئی ذمے داری نہیں لی ہے۔چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ ہم نے اپنی 2 رپورٹس جمع کرا رکھی ہیں، وفاقی حکومت کے فنڈ سے گرین لائن پراجیکٹ بن رہا ہے، یہ سب سے سستا پراجیکٹ ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے گرین لائن پراجیکٹ بنانے سے پہلے شہر والوں سے پوچھا تھا ۔

چیف آپریٹنگ آفیسر نے جواب دیا کہ جی ہم سٹی کونسل سے وقتا فوقتا منظوری لیتے رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ گرین لائن کی وجہ سے کتنی مٹی اور کچرا ہی ۔چیف آپریٹنگ آفیسر نے بتایا کہ پہلا فیز مکمل ہو چکا ہے، دوسرے فیز کا کام نمائش تا ٹاور جاری ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قائدِ اعظم کے مزار کے سامنے کوئی برج تو نہیں بنا دیا ۔

چیف آپریٹنگ آفیسر نے بتایا کہ قائد اعظم مینجمنٹ بورڈ کی منظوری کے بعد نمائش پر انڈر گرائونڈ کام کر رہے ہیں، گرین لائن سروس کی بسیں مئی تک کراچی آ جائیں گی، گرین لائن سے روزانہ 3 لاکھ افراد سفر کریں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے شہر کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، آپ نے گرین لائن سروس شروع کرنے سے پہلے کوئی سروے کرایا تھا آپ نے برج بنا دیئے ہیں، نیچے کے تین تین روڈ تباہ ہو گئے ہیں۔

چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ ہم نے بیشتر سڑکیں بحال کر دی ہیں، ہم نے 4 ارب روپے کی واٹر بورڈ کی لائنیں بچھائی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پراجیکٹ کونسا خود بنایا ہوگا قرضہ لیا ہوگا۔چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ کوئی قرضہ نہیں لیا، وفاقی حکومت کے فنڈ سے پراجیکٹ بن رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دفعہ نارتھ ناظم آباد گئے تباہی مچی ہوئی تھی، اتنی مشکل سے گئے سب تباہ ہوگیا ہے، آپ نے پورا بندر روڈ بھی خراب کردیا ، شہر کے بیچ میں بنانے کا کوئی جواز نہیں تھا انڈر گرائونڈ بناتے ، اربوں روپے لگا دیئے ، اس شہر کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت تھی ، مین سڑکیں تباہ کردیں ، دو دو تین تین لینز خراب کردیں ، سچ بات یہ ہے آپ نے شہر کو تباہ کردیا ہے اگر کچھ کرنا تھا تو رنگ روڈز بناتے، اس شہر کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت تھی، شاہراہ فیصل پر راشد منہاس والا فلائی اور پورا ٹریفک روک لیتا ہے یہ انجینئرنگ ہے آپ کی، آپ کو پانی دینا ہے گٹر ٹھیک کرنا ہے تو پیسہ باہر سے آئے گا ، تھر میں آر او پلانٹس کا کیا ہوا سب خراب ہیں پندرہ ارب روپے جھونک دیئے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے ریڈ لائن بس کیلئے رفاعی پلاٹ کیسے لے لیا کوئی پرائیویٹ زمین لیتے کھیل کا میدان کیوں لیا سب سے خطرناک بات یہ ہے کابینہ کورفاعی پلاٹس کنورٹ کرنے کا اختیارہے اور وہ کنورژن(حیثیت تبدیل)کررہی ہے۔وکیل نے بتایا کہ سندھ حکومت نے ایئر پورٹ کے پاس رفاعی پلاٹ کی غیر قانونی الاٹمنٹ کردی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ شکر کریں سندھ حکومت نے ایئر پورٹ کسی کو الاٹ نہیں کردیا ، یہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ سے کہا کہ مسٹر سی ایم ہم نے مئی 2019 میں حکم دیا تھا کیا ہوا اس کا ۔ مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کررہے ہیں معذرت چاہتا ہوں اگر درست رپورٹ پیش نہیں کرسکے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی معذرت کی ضرورت نہیں ہے ہمیں حکم پر عمل در آمد کی رپورٹ دیں ، سارا حکم نامہ ابھی پڑھ کر سنایا گیا بتائیں کچھ بھی عمل نہیں ہوا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ میں معذرت کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا کہ کچھ نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ زمینی حقائق یہی ہیں کہ کچھ نہیں ہوا ہے ، ہمیں کوئی ایک چیز بتادیں کراچی کی بہتری اور اصل شکل میں بحالی کیلئے کیا قدم اٹھایا ۔ مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ شہید ملت سے طارق روڈ تک نئی سیوریج لائنیں ، یونیورسٹی روڈ تعمیر کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کے شہری تو گائوں میں رہتے ہیں سارا شہر گائوں میں تبدیل ہوگیا ، نہ سڑکیں ہیں نہ پانی نہ پارک نہ میدان کچھ بھی نہیں ہے۔

وزیراعلی نے درخواست کی کہ کچھ مہلت مل جائے تو عمل درآمد رپورٹ پیش کردیں گے۔ عدالت نے حکم پر عمل درآمد کرکے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔اسی دوران چیف جسٹس نے سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے حوالے سے خبر لگی ہے کہ عمارتیں بنانے کی اجازت دے رہے ہیں، آپ نے ڈی جی بلڈنگ کو تمام عمارتوں کی منظوری کی ہدایت کی ہے۔

جس پر ناصر حسین شاہ نے کہا کہ کوئی غلط بلڈنگ پلان منظور نہیں ہوگا، جہاں قانونی اجازت ہے وہی عمارت بنے گی، کسی کو غیرقانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دیں گے آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شہر میں خالی جگہ کہاں ہے، جو عمارتیں بنے گی، ڈی جی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے عمارتیں گرانے کا وعدہ کیا ہے، اب ڈی جی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جہاد کرنے نکل رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے حکم پر یہ ایس بی سی اے والا بابا ویسے ہی کانپ رہا ہے وہ کیا کرے گا، جس پر ناصر شاہ نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق کام ہوگا۔عدالت نے کراچی سرکلر ریلوے مکمل بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیکرٹری ریلوے سے کہا کہ سندھ حکومت سے بات کریں اور کراچی سرکلر ریلوے 100 فیصد چلائیں۔ عدالت نے ریلوے کی زمینوں پر قائم قبضے ختم کرانے اور تمام زمینیں واگزار کرانے کا بڑا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ریلوے خود آپریشن کرے اور تمام اراضی واگزار کرائے، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ آپریشن میں مدد کریں اور سیکورٹی دیں۔

چیف جسٹس نے ریلوے کی لیز پر دی گئی اراضی بھی خالی کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پیٹرول پمپ کیسے بن رہے ہیں ریلوے زمینوں پر کون بنا رہا ہے، یہ قبضے ویسے ہی تو نہیں ہو گئے، آپ کے افسران ہی تو سب کچھ کرتے رہے یہ، اب تو ریلوے زمین پر مزار تک بنا لیے گئے، حیات ریجنسی اتنی قیمتی زمین تھی ریلوے نے اونے پونے بیچ دی۔عدالت نے حیات ریجنسی کی زمین کو ریلوے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک ماہ میں حیات ریجنسی کی زمین سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے گیلانی اسٹیشن کے قریب ریلوے زمین پر تجوری ہائٹس کی تعمیر روکنے کا حکم بھی دے دیا۔ سپریم کورٹ نے جون 2021 تک گرین لائن بس چلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کے آئی ڈی سی ایل ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے ۔سپریم کورٹ رجسٹری میں مقدمات کی سماعت پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے، غیر متعلقہ افراد کا مرکزی دروازے سے داخلہ بند کردیا گیاتھا، کئی اعلی سرکاری افسران اور وکلا کو بھی دروازے پرروکا گیا، جن وکلا کا نام کاز لسٹ میں شامل تھا صرف انہیں داخلے کی اجازت ملی۔