سینیٹ انتخابات:متوقع پارٹی پوزیشن کیا ہوگی؟

انتخاب کا طریقہ کار کیا ہے؟ سینیٹ کا قیام کیوں عمل میں لایا گیا؟

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 3 مارچ 2021 12:21

سینیٹ انتخابات:متوقع پارٹی پوزیشن کیا ہوگی؟
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 مارچ ۔2021ء) پنجاب سے 11 سینٹرز کے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد سینیٹ کی مجموعی طور پر 37 نشستوں پر مقابلہ ہو رہا ہے جن میں سندھ کے 11 بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 12، 12 جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دو سینٹرز کے انتخاب کے پولنگ کا عمل جاری ہے.

(جاری ہے)

سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابات ہو نا تھے تاہم پنجاب سے 11 سینیٹرز بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں سینیٹ انتخابات ہر تین سال بعد ہوتے ہیں جب نصف سینیٹرز کے ریٹائر ہونے کے بعد نئے سینیٹرز ایوان میں آتے ہیں اگرچہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کا اندازہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن سے لگایا جاسکتا ہے تاہم خفیہ رائے شماری اور اس کے منفرد طریقہ کار کی وجہ سے یہ الیکشن ماضی میں حیرت انگیز نتائج دیتا رہا ہے.

سینیٹ الیکشن کے اس عمل کو آئینی، قانونی، سیاسی اور انتخابی ماہرین ترجیحی بنیاد اور خفیہ ووٹ کی بنا پر قدرے پیچیدہ گردانتے ہیں جب بھی سینیٹ انتخابات آتے ہیں تو ذرائع ابلاغ پر سیاسی جوڑ توڑ اور پیسوں کے استعمال کی خبریں آنے لگتی ہیں ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ انتخاب کیسے ہوتا ہے اور اس میں پیسہ چلنے کے الزامات کیوں سامنے آتے ہیں.

سینیٹ الیکشن کے روز چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی پولنگ اسٹیشنز میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا عملہ پولنگ کراتا ہے سینیٹ میں چاروں صوبوں کے 23، 23 ارکان ہوتے ہیں ان میں 14 جنرل نشستیں، چار خواتین، چار ٹیکنو کریٹ اور ایک اقلیتی رکن ہوتا ہے اس مرتبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی 12 جب کہ سندھ کی 11 نشستوں پر الیکشن ہو رہا ہے جب کہ پنجاب کی 11 نشستوں پر بلامقابلہ انتخاب ہو چکا ہے اسی طرح 2024 میں پنجاب اور سندھ کی بارہ، بارہ جب کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی 11 نشستوں پر انتخاب ہو گا.

گو کہ پنجاب سے تمام 11 سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں تاہم اگر یہاں انتخاب ہوتا تو سات جنرل نشستوں کو پنجاب اسمبلی کے ووٹ کاسٹ کرنے والے ارکان مثال کے طور پر اگر سب 371 اراکین ووٹ ڈالیں تو اسے سات پر تقسیم کیا جانا تھا یعنی اس صورت میں سینیٹر منتخب ہونے کے لیے امیدوار کو پنجاب اسمبلی کے 53 اراکین کی حمایت ہوتی. اسی طرح ملک کی سب سے چھوٹی بلوچستان اسمبلی کے تمام 66 ارکان اگر ووٹ ڈالتے ہیں تو یہاں کی سات جنرل نشستوں پر سینیٹر منتخب ہونے کے لیے امیدوار کو نو ارکانِ اسمبلی کی حمایت درکار ہو گی یہی فارمولہ سندھ اور خیبرپختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کے انتخاب کے لیے لاگو ہو گا اسی طرح خواتین اور ٹیکنو کریٹس کی نشستوں پر امیدواروں کا انتخاب بھی اسی فارمولے کے تحت ہوتا ہے.

سینیٹ انتخابات کے لیے ہر امیدوار کو ایک بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے جن میں انتخاب لڑنے والے امیداروں کے نام درج ہوتے ہیں اگر سات نشستوں پر 10 امیدوار میدان میں ہیں تو رکن اسمبلی یعنی ووٹر پہلی، دوسری اور تیسری سے لے کر 10 ویں ترجیح لکھے گا یعنی اگر کوئی امیدوار سینیٹر بننے کے لیے درکار ووٹ حاصل کر لیتا ہے تو اضافی ووٹ دوسری، تیسری اور چوتھی ترجیح والے امیدوار کے کھاتے میں چلے جاتے ہیں.

عام طور پر پہلی ترجیح کے ووٹ حاصل کرنے والا ہی سینیٹر منتخب ہوتا ہے اسی پیچیدہ عمل کی وجہ سے سینیٹ انتخابات کو ترجیحی الیکشن بھی کہا جاتا ہے اور اس پیچیدہ انتخابی عمل سے قبل سیاسی جماعتیں ووٹ کاسٹ کرنے کے طریقے سے متعلق تربیتی ورکشاپس کا بھی اہتمام کرتی ہیں سیاسی جماعتیں اپنے ارکان اسمبلی کے بلاکس بنا دیتی ہیں اور انہیں امیدواروں کو کامیاب کرانے کا ٹاسک دیا جاتا ہے.

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے کل4ارکان ہیں جن میں سے دو جنرل جب کہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنو کریٹ رکن ہے اِس مرتبہ فاٹا کی نشستیں ختم ہونے کے باعث سینیٹ انتخابات 52 کے بجائے 48 نشستوں پر ہو رہے ہیںیہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ قومی اسمبلی کے ہوتے ہوئے سینیٹ کی کیا ضرورت ہے تو پارلیمانی جمہوریت میں قومی اسمبلی کے اراکین براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں لہذٰا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے پنجاب سے سب سے زیادہ اراکین اسمبلی منتخب ہوتے ہیں جب کہ بلوچستان سے سب سے کم اراکین قومی اسمبلی تک پہنچتے ہیں.

لہذٰا چھوٹے صوبوں کا احساسِ محرومی ختم کرنے اور چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی دینے کے لیے سینیٹ آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا مثال کے طور پر اگر پنجاب کے اکثریتی صوبے ہونے کی بنیاد پر قومی اسمبلی کوئی ایسا بل منظور کر لے جس پر چھوٹے صوبوں کو تحفظات ہوں تو سینیٹ میں یہ بل زیر غور لایا جاتا ہے تاکہ سب کے تحفظات دور ہوں پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی آدھی نشستوں کے انتخابات ہر تین سال کے بعد ہوتے ہیں 104 رکنی سینیٹ میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد اب سینیٹ کی نشستیں 100 ہو گئی ہیں.

فاٹا کے8 میں سے ریٹائر ہونے والے چار سینیٹرز کی نشستوں پر اس مرتبہ انتخاب نہیں ہو گا جب کہ موجودہ چار سینیٹرز بھی 2024 تک اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے اور 2024 میں سینیٹرز کی کل تعداد 96 رہ جائے گی پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے رواں سینیٹ انتخابات میں حکمران جماعت تحریکِ انصاف کو 21 نئی نشستیں حاصل ہونے کے سبب سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بننے کے امکانات ہیں.

پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پوزیشن تقریباً برقرار رہے گی پیپلز پارٹی کے 21 میں سے سات سینیٹرز ریٹائر ہوئے تھے ریٹائرڈ ہونے والے ان تمام ارکان کا تعلق سندھ سے ہے سندھ اسمبلی میں اکثریت رکھنے کے باعث پیپلز پارٹی چھ نشستیں دوبارہ حاصل کرسکتی ہے یوں پیپلز پارٹی کے سینیٹ کی دوسری، مسلم لیگ (ن) کے تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے کا امکان ہے سینیٹ انتخابات 2021 کے بعد ایوانِ بالا میں حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کی نشستیں کچھ معمولی فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسی ہونے کے امکانات ہیں.