سندھ اسمبلی میں مالی سال2021-22 ء کے بجٹ پر تیسرے روز بھی بحث جاری رہی

بحث میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے متعدد ارکان نے حصہ لیا، اسپیکر نے ایوان کی کارروائی منگل کی دوپہر بارہ بجے تک ملتوی کردی

پیر 21 جون 2021 23:37

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جون2021ء) سندھ اسمبلی میں پیر کو مالی سال2021-22 ء کے صوبائی بجٹ پر تیسرے روز بھی بحث جاری رہی جس میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے متعدد ارکان نے حصہ لیا۔پیپلز پارٹی کے فقیر شیر محمد بابلانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ سندھ پاکستان کا حصہ ہے مگر افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سندھ میں نہ گیس ہے اور نہ پانی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلام کوٹ کی ہر یونین کونسل میں ہائی اسکول دیا جائے۔ جی ڈی اے کے رکن ڈاکٹر رفیق بھانبھن نے اپنے خطاب میں کہا کہ میںبجٹ پر کیا بات کروں سندھ میں کتوں کی ویکسین تک دستیاب نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ عوامی حکومت کو تیرہ سال ہوگئے ہیں مگرمیرے گاؤں میں پرائمری اسکول بند پڑا ہے۔یہ جمہوری ڈکٹیٹر شپ کی معمولی مثال ہے۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کی رکن اسمبلی ادیبہ حسن نے کہا کہ ہر آر او پلانٹ پر بی بی کے نام کی پلیٹ لگی ہے لیکن کوئی آر او پلانٹ نہیں چل رہاسندھ حکومت نے عوام کے مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن سعدیہ جاوید نے کہا کہ ہم پانی کے غیر قانونی کنکشن ختم کررہے ہیں،کراچی کے نام پر ووٹ لینے والوں نے جو کام کرنا تھا ہم وہ کام کررہے ہیںحکومت پاکستان نے خود تسلیم کیا ہے گدھوں کی تعداد ڈبل ہوگئی ہے اوربندر بھی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔

جی ڈی اے کی رکن نصرت سحر عباسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سندھ کے اسکولوں میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہیں مگر بلاول لکھتے رہے سندھ ترقی کی راہ پرگامزن ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں ماؤں بہنوں کے ساتھ زیادتیاں عام ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو سب اچھا نظر آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی میں کرپشن عروج پر ہے۔پبلک سروس کمیشن میں نوکریاں بیچی گئیں،کسانوں اساتذہ کو سندھ میں لاٹھیاں ماری گئیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ دھرتی کا احساس پیپلز پارٹی کو نہ پہلے تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔نصرت سحر عباسی نے کہا کہ ہرصوبے میں قومی زبان میں بجٹ پیش کیا گیا۔سندھ کے وزیر اعلی ٰنے کس کو خوش کرنے کے لئے انگریزی میں بجٹ پیش کیا۔اسپییکر نے نصرت سحر عباسی کی تقریر کا وقت ختم ہونے پر انہیں مزید بات کرنے سے روک دیا اوران کا مائیک بند کردیا جس پرنصرت سحر عباسی اور اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا۔

نصرت سحر کا کہنا تھا کہ میرا وقت ختم نہیں ہوا ابھی دس منٹ بھی پورے نہیں ہوئے تاہم اسپیکر نے ان کی ایک نہ سنی اور انہیں ہدایت کی کہ آپ لیڈر شپ کو نام لیکر نشانہ نہ بنائیں۔ اسپیکر سندھ اسمبلی نے نصرت سحرعباسی کو متنبہ کیا کہ اگرآپ بلاوجہ تنقید کرینگی تو کارروائی سے حذف کردینگے۔ اپوزیشن ارکان نے اپنے احتجاج کے دوران اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا اور شور بھی مچایا۔

تاہم اس شور کی پرواہ کئے بغیر پیپلز پارٹی کے منور وسان نے ایوان میں اپنی تقریر شروع کردی۔منور وسان نے کہا کہ خیرپور میں ایک ڈائن پیدا ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت سندھ نے بہت کام کئے ہیںمحکمہ صحت سندھ کو چاہیے کہ وہ ڈائن سے جان چھڑانے کے لئے اسپرے کرائے۔انہوں نے کہا کہ ایوان صدر میں 28لاکھ روپے کی لاگت سے طوطوں کا پنجرہ بنایاگیاہے۔

درخواست ہے کہ سندھ اسمبلی کی طوطی کو وہاں منتقل کیاجائے۔اس موقع پر اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ یہاں لوگ مستقبل کا سوچ کر بات کررہے ہوتے ہیں،کچھ لوگوں کو ایم پی اے بننے کے لئے سرکس کرنا ہوتاہے۔اگر وہ ایم پی اے نہ بنے تو سرکس میں کام آئیں گے۔ پی ٹی آئی کی رکن دعابھٹونے کہا کہ اسپیکرہمارے ساتھ زیادتی کرتے ہیں بات کرنے دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ میں لوگوں کی حالت خراب ہے۔ایمبولینس لینے کے لئے ایک باپ کوبھیک مانگناپڑتی ہے ایک ڈاکٹرموبائل استعمال کرتی رہی۔دعا بھٹو کی تقریر کے دوران سندھ اسمبلی ارکان کے ارکان نے ایک دوسرے کے لئے غیر پارلیمانی الفاظ کا آزادانہ استعمال کیا۔دعا بھٹو نے پیپلزپارٹی کے ارکان کو بکریاں کہہ دیا اور اسپیکر سے کہا کہ اسپیکر صاحب ان بکریوں کو خاموش کروائیںجس پر پیپلزپارٹی ارکان نے دعا بھٹو کو بندریا کہہ ڈالا بعد میںاسپیکر نے دعا بھٹو کا مائیک بند کردیا اور دعا بھٹو نے پی پی ارکان کے لئے جو الفاظ استعمال کئے تھے اسپیکر نے انہیں کارروائی سے حذف کرادیا۔

پی ٹی آئی کے رکن جمال صدیقی نے کہا کہ جب بجٹ حکومت نے ہی بنانا تھا تو پوسٹ بجٹ اجلاس کیوں بلایا گیا۔جب سے بلدیاتی نمائندوں کی مدت ختم ہوئی اور جب سے افسران کو ایڈمنسٹریٹر لگادیا یہاں پندرہ دن کے لیے ملیر کے ڈی سی لگتے ہیں۔پندرہ دن میں کام اتار کر واپس آجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا کے دنوں میں وزیر اعظم نے اس سندھ کے غریبوں کی مدد کی۔

جمال صدیقی نے کہا کہ جوسندھ کو دھرتی ماں کہتے ہیں اور اسی دھرتی کی ماں بہن کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی راجہ عبدالرزاق نے کہا کہ جو لوگ سیاسی طور پر یہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں وہ اس پر تنقید کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں پر انتشار کی سیاست ہورہی ہے۔جنہوں نے زندہ لوگوں کو جلایا تھا وہ بحریہ ٹاو ٴن پر ماتم کررہے تھے لیکن ہم بحریہ ٹاو ٴن کے معاملے کو حل کریں گے اور سندھ میں لسانی سیاست کو پنپنے نہیں دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جو سندھ دشمن ہے وہ پاکستان دشمن ہے۔تحریک انصاف کے شاہنواز جدون نے کہا کہ چیف جسٹس کہتے ہیں سندھ میں کرپٹ حکومت ہے۔سندھ کے اسکولوں میں فرنیچر نہیں ہے۔سندھ کے اکثر اسکولوں میں گائیں بندھی ہوئی ہیں کیا وہ وہاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی میں پورے ملک سے علاج کرانے آتے ہیں۔

وفاقی بجٹ سندھ کو دو اسکیمیں دی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شیرو سے قوم حساب مانگتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کے کراچی کے متعلق اقدامات قابل تحسین ہیں۔وفاقی حکومت نے 162ارب کااعلان کیا پھرگیارہ سوارب کی بات کی مگر ایک دھیلانہیں دیا۔تحریک انصاف کے رکن رابستان خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ سندھ حکومت عوام کو صرف لالی پاپ دیتی ہے۔آج میرے حلقے کے اسکول بند پڑا ہے۔

میرے حلقے کی ڈسپنسری میں سیوریج کا پانی کھڑا ہے۔سرجانی میں سندھ گورنمنٹ اسپتال ہے۔کروڑوں روپے اس اسپتال پر لگے ہیں مگر وہ کام نہیں کررہااس کو فنکشنل کردیں۔لیاری میں لوگوں کے گھروں میں پانی نہیں آتا ہی.ایم ڈی واٹر بورڈ سے بات کریں تو کہتے ہیں کہ سسٹم سے لو،سسٹم پتا نہیں کس کا ہے۔سسٹم کو ذکر سننے پر اسپیکر نے رابستان سے کہا کہ یہ سسٹم کیا ہے مجھے بھی سمجھائیں۔

جس پر رن اسمبلی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے ایک سسٹم بچھایا ہے۔ جو باہر ملکوں میں پیسے بھیجتے ہیں۔یہ وہ سسٹم ہے۔پیپلز پارٹی کے رکن پیر مجیب الحق نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کے ایشو پر آواز اٹھائی ہے۔تھر کول ایک حقیقت ہے۔سندھ میں کام نہ ہونے کا تاثر بنایا جارہا ہے۔میرے حلقے میں پیپلز پارٹی نے بہت اسکیمیں دی ہیں۔بعدازاں اسپیکر نے ایوان کی کارروائی منگل کی دوپہر بارہ بجے تک ملتوی کردی