میانمار:  فوجی جنتا  نے 2023 میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا

DW ڈی ڈبلیو پیر 2 اگست 2021 13:20

میانمار:  فوجی جنتا  نے 2023 میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2021ء) میانمار فوجی جنتا کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے اتوار کے روز ٹیلی ویزن پر اپنے خطاب میں کہا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران 'چند ایک دہشت گردانہ حملوں‘ کو چھوڑ پر ملک میں استحکام رہا۔ انہوں نے ’ہر صورت میں‘ اگست 2023 تک کثیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا بھی وعدہ کیا۔

خیال رہے کہ فوج نے یکم فروری کو ملک میں سویلین لیڈر آنگ سان سوچی کی جماعت کی حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔

فوجی سربراہ آنگ ہلینگ نے سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے اراکین کو ”دہشت گرد" قرار دیا اور بغاوت کے بعد سے ملک میں تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔

فوجی جنرل نے سن 2023 تک ملک سے ایمرجنسی ختم کردینے کا بھی اعلان کیا۔

(جاری ہے)

آرمی چیف نے مزید کیا کہا؟

جنرل من آنگ ہیلنگ نے ملک میں جمہوریت بحال کرنے کاوعدہ کیا ہے لیکن اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔

انہوں نے کہا،”میں ملک میں جمہوریت اور وفاق پر مبنی ایک یونین کے قیام کی ضمانت دیتا ہوں۔"

فوجی رہنما نے کہا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران ”چند ایک دہشت گردانہ حملوں" کو چھوڑ کر پورا ملک”مستحکم“ رہا۔

فوجی جنتا نے اقتدار پر اپنے قبضے کو جائز قراردینے کے لیے سن 2020 میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔

فوج نے گزشتہ ہفتے انتخابات کے نتائج کو منسوخ کردیے تھے۔

اس اعلان کا کیا مطلب ہے؟

فوج نے ابتدا میں کہا تھا کہ وہ بغاوت کے بعد ایک سال تک اقتدار میں رہے گی۔ اس نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ اقتدار پرقبضہ آئین کے دائرہ کار کے اندر کیا گیا ہے۔

فوجی سربراہ کی طرف سے انتخابات کرانے کے اعلان کے بعد اب ملک پوری طرح فوج کی گرفت میں آ گیا ہے۔

دوسری طرف جمہوریت نواز اور بین الاقوامی برادری نے اپوزیشن کے خلاف فوج کی ظالمانہ کارروائیوں پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔

میانمار میں تشدد جنوبی ایشا کو غیر مستحکم کر سکتا ہے، اقوام متحدہ

ہفتے کے روز طلبہ کے چھوٹے چھوٹے گروپوں نے تمام بڑے شہروں میں فوجی جنتا کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کیے۔

اس دوران کووڈ کی وجہ سے بھی ملک میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔

ہسپتالوں میں کام کرنے والے جمہوریت نواز ورکر کام پر نہیں آرہے ہیں جس کی وجہ سے ہسپتال خالی پڑے ہیں۔ ورلڈ بینک نے اس سال ملکی معیشت میں اٹھارہ فیصد گراوٹ کی پیش گوئی کی ہے۔

’فوج پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا‘

انسانی حقوق کے کارکن ماونگ زرنی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابارت کرانے کے فوج کے وعدے پر انہیں شبہ ہے۔

انہوں نے کہا،”یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسی باتیں وہ کہتے رہے ہیں۔ 1958کے بعد سے ہی جب بھی ملک میں فوج آئی ہے، اس نے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے وعدے کیے۔ لیکن اگر انتخابات کے نتیجے میں فوج کی پسندیدہ جماعت حکومت بنانے میں ناکام رہی تو انہوں نے انتخابات کے نتائج کو ہی منسوخ کر دیا۔"

یورپی یونین اور برطانیہ کی میانمار کی فوجی جنتا پر نئی پابندیاں

زرنی نے مزید کہا کہ فوج عوام میں اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔

اسے کسی زمانے میں 'قومی آزادی فورس‘ کے طورپر دیکھا جاتا تھا لیکن لوگ اب اسے ایک’دہشت گرد تنظیم‘ کے طورپر دیکھتے ہیں، جس نے ملک کے حصوں کا چارج سنبھال رکھا ہے اور اب میانمار میں کوئی حکومت کام نہیں کر رہی ہے۔“

بین الاقوامی برادری کا ردعمل

جنرل من آنگ ہیلنگ کا یہ اعلان ایسے وقت آیا ہے جب پیر کے روز جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم، آسیان، کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہونے والی ہے۔

اس میٹنگ میں میانمار میں جاری سیاسی بحران اور تشدد سے نمٹنے میں مدد کے لیے ایک خصوصی ایلچی کی بھی تقرری کی جائے گی۔ دس رکنی آسیان میں میانمار بھی شامل ہے۔

میانمار: سوچی کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ

اس دوران فوجی جنتا کے سربراہ نے اپنے خطاب کے دوران آسیان کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ 'آسیان کے فریم ورم کے اندر‘ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جس میں میانمار کے لیے آسیان کے خصوصی سفیر کے ساتھ مذاکرات بھی شامل ہیں۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)