امریکا، پاکستان کا مشورہ مان لیتا تو افغانستان میں طویل جنگ سے بچ جاتا، جنرل (ر) احسان الحق

پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بہتری کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے کیونکہ ہمیں افغانستان میں استحکام کے لیے امریکا کی مدد کی ضرورت ہے -جوبائیڈن انتظامیہ، افغانستان کے عوام کی بہتری کے لیے آنے والی طالبان انتظامیہ کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ مل کر کام کریں طالبان حکومت کے رہنماؤں اور حکام کو اقوام متحدہ کی دہشت گرد افراد اور پابندیوں کی فہرست میں رکھنے سے بین الاقوامی تنظیمیں افغانستان میں کام نہیں کرسکیں گی، جس سے طالبان حکومت کا رویہ بھی متاثر ہو گا اور اس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے،انٹرویو

ہفتہ 11 ستمبر 2021 00:35

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 ستمبر2021ء) پاک فوج کے سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور آ ئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) احسان الحق نے کہا ہے کہ امریکا اگر نائن الیون کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کا مشورہ مان لیتا تو افغانستان میں طویل اور مہنگی جنگ سے بچ جاتا اور خطے کو بھی عدم استحکام سے بچایا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہماری مخلصانہ اور بہترین کوششوں کو پذیرائی نہیں دی گئی اور اس کا نتیجہ 20 سال کی طویل جنگ کی صورت میں نکلا، جوبائیڈن انتظامیہ، افغانستان کے عوام کی بہتری کے لیے آنے والی طالبان انتظامیہ کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔

عرب میڈیا ' کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں جنرل (ر) احسان الحق نے کہا کہ امریکا نائن الیون کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کا مشورہ مان لیتا تو افغانستان میں طویل اور مہنگی جنگ سے بچ سکتا تھا۔

(جاری ہے)

نومبر 2001 کے اوائل میں نیٹو فورسز کے افغانستان میں داخل ہونے کے فوری بعد پاکستان نے خطے کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے سعودی عرب کی معاونت سے سفارتی کاوشیں شروع کیں اور جنرل (ر) احسان الحق نے واشنگٹن کا دورہ کیا اور امریکا کے اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کو پاکستان کے فوجی حکمران پرویز مشرف کی جانب سے لکھا گیا 4 صفحات پر مشتمل خط پہنچایا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جنرل پرویز مشرف نے خط میں افغان مسئلے کے حل کے لیے ان طالبان رہنماؤں سے بات چیت شروع کرنے کی تجویز دی تھی جو القاعدہ کے خلاف کارروائی میں تعاون کے لیے تیار تھے۔جنرل (ر) احسان الحق نے انٹرویو کے دوران کہا کہ یہ پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ اقدام تھا، میں شہزادہ سعود الفصل (مرحوم) کے ساتھ امریکا گیا اور ہم نے امریکی صدر، وزیر خارجہ، سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور دوسرے امریکی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ افغانستان میں مداخلت اقوام متحدہ کے ذریعے ہونی چاہیے۔ 20 سال قبل اس موقع کو ضائع کر دیا گیا، اگر امریکا اس وقت پاکستان اور سعودی عرب کی تجویز مان لیتا تو جنگ سے بچا جا سکتا تھا اور امریکا اور افغان عوام خون خرابے، بڑے نقصانات اور خطے میں عدم استحکام سے بچا جاسکتا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب نے مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ افغانستان میں تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے ذریعے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا ہی بہترین آپشن ہے ہم نے انہیں بتایا تھا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے ذریعے ایک وسیع البنیاد متفقہ حکومت کا قیام عمل میں لانا چاہیے تاکہ یہ مسئلہ مزید شدت اختیار نہ کرے لیکن بدقسمتی سے ہماری مخلصانہ اور بہترین کوششوں کو پذیرائی نہیں دی گئی اور اس کا نتیجہ 20 سال کی طویل جنگ کی صورت میں نکلا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ محض ایک فون پر کسی ملک کو آمادہ نہیں کیا جاسکتا، امریکا نے نائن الیون کے 24 سے 36 گھنٹے بعد پاکستان سے رابطہ کیا تھا، پاکستان واقعے کی پہلے ہی مذمت کر چکا تھا۔ ہم پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ ہم عالمی برادری کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ہمارا ردعمل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہوگا۔

اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور پاکستان کو بتائے بغیر امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی انٹیلی جنس کی ایک بڑی ناکامی تھی اور میرے لیے بھی ذاتی طور پر یہ سبکی کا باعث تھی۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے سے پاکستان کو تزویراتی طور پر فائدہ ہوگا کیونکہ کابل میں حکمرانوں کی تبدیلی بھارت کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روک دے گی۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بہتری کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے کیونکہ ہمیں افغانستان میں استحکام کے لیے امریکا کی مدد کی ضرورت ہے جوبائیڈن انتظامیہ، افغانستان کے عوام کی بہتری کے لیے آنے والی طالبان انتظامیہ کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ طالبان حکومت کے رہنماؤں اور حکام کو اقوام متحدہ کی دہشت گرد افراد اور پابندیوں کی فہرست میں رکھنے سے بین الاقوامی تنظیمیں افغانستان میں کام نہیں کرسکیں گی، جس سے طالبان حکومت کا رویہ بھی متاثر ہو گا اور اس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔