اپوزیشن اتحاد کے لیے شہباز شریف سرگرم ہو گئے

جب تک شاہد خاقان عباسی اور مولانا فضل الرحمن وضاحت یا معذرت نہیں کرتے اس وقت تک واپسی ممکن نہیں، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے کڑی شرائط رکھ دیں

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان بدھ 15 ستمبر 2021 14:10

اپوزیشن اتحاد کے لیے شہباز شریف سرگرم ہو گئے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 ستمبر 2021ء) : مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے دوبارہ اپوزیشن کا اتحاد بنانے کے لیے رابطے شروع کر دئیے ہیں۔مسلم لیگ ن کا پیپلز پارٹی اور اے این پی سے رابطہ ہوا۔پیپلز پارٹی اور اے این پی نے اس حوالے سے کڑی شرائط رکھ دی ہیں۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی جانب سے واضح کیا گیا کہ جب تک شاہد خاقان عباسی اور مولانا فضل الرحمن وضاحت یا معذرت نہیں کرتے اس وقت تک واپسی ممکن نہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وسیع تر مفاد میں ہم واپس آ بھی جاتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے۔مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ کے اندر ایک گروپ اپنی روش بدلے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے اندر ایک گروپ جو متحدہ اپوزیشن کے مخالف ہے، کی کوشش ہے یہ اتحاد نہ ہو اور اسی ضمن میں ایک لابی ن لیگ کے اندر متحرک ہو چکی ہے جو کوشش کر رہی ہےکہ کسی نہ کسی طرح سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں دوریاں بڑھیں۔

(جاری ہے)

ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی اس چیز پر سٹینڈ لے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت سرنڈر نہیں کریں گے۔پیپلز پارٹی کے ساتھ دوریوں کے حق میں اور صلح کی مخالفت میں ہیں۔یہاں واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی شروع سے ہی اسمبلیوں سے استعفے دینے کی مخالف رہی ہے۔ جنوری 2021ء میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ہونے والے اجلاس میں سابق صدرآصف علی زرداری نے کہا کہ ہمیں صورتحال دیکھنا ہو گی،استعفوں کے لیے موسم سرد ہے، لوگ خود نہیں نکل رہے،معاملہ بہتر موسم تک لے جائیں۔

یہ نہ ہو کہ استعفوں پر حکومت الیکشن کروالے،جس پر سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اگر آپ بہترتياري سے استعفوں پر بات کرتے ہیں تو کوئی اعتراض نہیں۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے تحریک عدم اعتماد کی بات کی تو نواز شریف ناراض ہوئے اور کہا کہ تحریک عدم اعتماد پرہمیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینا پڑے گی، کیا آپ ایسا کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد لی جائے،جوڑ توڑ کے لیے پیسے لگیں گے اور یہ کام کبھی اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہیں ہوتا۔ اختر مینگل نے بھی نواز شریف کی بات کی تائید کی تھی۔