کیسا احتساب، کیسی شفافیت اور کون سی اچھی حکمرانی، نیب آرڈیننس سے حکومت نے خود کو این آراو دیدیا ہے، سینیٹر میاں رضا ربانی

کابینہ، ذیلی کمیٹیوں، مشترکا مفادات کونسل اور اسٹیٹ بینک کو نیب کی پہنچ سے دور کردیا گیا ہے، موجود آرڈینسس 1999 کے اصل آرڈیننس سے متصادم ہے،یہ نیب نہیں اپوزیشن آرڈیننس ہے،موجودہ کابینہ پارلمیان کے سامنے جوابدہ نہیں ہے،حکومتی شخصیات، فورمز اور فیصلوں کو تحفظ دینے کے بعد پی ٹی آئی کا احتساب کا بیانیہ دم توڑ گیاہے، پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 8 اکتوبر 2021 21:20

کیسا احتساب، کیسی شفافیت اور کون سی اچھی حکمرانی، نیب آرڈیننس سے حکومت ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اکتوبر2021ء) پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سابق چئیرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے پی ٹی آئی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیسا احتساب، کیسی شفافیت اور کون سی اچھی حکمرانی، نیب آرڈیننس سے حکومت نے خود کو این آراو دے دیاہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پرپاکستان پیپلزپارٹی سندھ کے سیکریٹری جنرل وقارمہدی دیگربھی موجود تھے ۔ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے نیب آرڈیننس کا پوسٹ مارٹم کرتے کہا کہ کابینہ، ذیلی کمیٹیوں، مشترکا مفادات کونسل اور اسٹیٹ بینک کو نیب کی پہنچ سے دور کردیا گیا ہے، حکومتی شخصیات، فورمز اور فیصلوں کو تحفظ دینے کے بعد پی ٹی آئی کا احتساب کا بیانیہ دم توڑ گیاہے،پی ٹی آئی نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا کہ ریکارڈ مہنگائی کے بعد اگلا الیکشن جیتنا ممکن نہیں، نیب آرڈیننس سے پیش بندی کی جارہی ہے اپوزیشن کو الیکشن سے پہلے نا اہل کرانا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ موجود آرڈینسس 1999 کے اصل آرڈیننس سے متصادم ہے،یہ نیب نہیں اپوزیشن آرڈیننس ہے،موجودہ کابینہ پارلمیان کے سامنے جوابدہ نہیں ہے، ملک 1962 کے شیڈو آئین کے تحت چلایا جارہا ہے،ملک کو صرف ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جسمیں کوئی مقدس گائے نا ہو۔رضا ربانی نے کہا کہ نیب آرڈیننس کی سرکلر کے ذریعے کابینہ سے منظوری اس سے بڑا کوئی مزاق نہیں ہوسکتا،نیا آرڈیننس 1999 کے نیب آرڈیننس کے بنیاد اصول و ضوابط کے خلاف ہے،ایوان بالا اور زیریں اور عدلیہ کے مطابق بنیاد کے خلاف کوئی ترمیم نہیں لائی جاسکتی۔

انہوں نے کہاکہ نیب چیئرمین کی توسیع نہیں ہوسکتی ہے،جس نے توسیع لینی ہے وہ کس حکم کے کہنے پر حکومت کا احتساب کرے گا،جو تھوڑی بہت ٹرانسپرنسی تھی وہ بھی ختم ہوگئی ہے،وفاقی ،صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کو اڈمنٹی دے دی ہے،اگر کوئی گواہ کورٹ نہیں آسکتا تو وہ وڈیو لنک سے اپنا بیان ریکارڈ کرسکتا ہے،ہم نے دیکھا ہے کس طرح عدالتی سسٹم کو استعمال کیا جاتا ہے،یہ کون سی ٹرانسپرنسی ہے۔

میاں رضا ربانی نے نیب آرڈینسس کی ایک ایک شق میں موجود تصادات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جن افراد کو نیب کے دائرے سے نکالا گیا ہے انکی لمبی فہرست ہے پروسیجرل لیپسز کو بھی نیب کے دائرے سے نکال دیا گیا ہے،ایڈوائر، رپورٹ اور پریویو کو بھی نیب دائرہ سے باہر کردیا تو پیچھے بچا کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نیب عدالتوں میں ریٹائرڈ ججز کی تعیناتی ماضی میں اچھا تجربہ نہیں رہا،وہ آزاد عدلیہ پر ایک ضرب لگاتی ہے ،جوڈیشنل پالیسی اور بار کونسلز بھی ریٹائرڈ ججوں کی بینکنگ سمیت دیگر ٹریبیونلز میں تعیناتی کی مخالف ہے۔

انہوں نے اس امرکا اعتراف کیا کہ موجودہ صورت حال کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں بھی ہیں،سیاسی جماعتوں نے اپنا کردارادا نہیں کیا اپوزیشن پر الزام تھا کہ این آر او مانگتی ہے،ایسا نہیں ہوسکتا کہ عدلیہ اور فوج اپنے احتساب کا الگ طریقہ کار رکھیں اور سیاستدانوں کے لیے نیب آرڈیننس ہو۔انہوں نے نیب آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ سیاسی جماعتوں نے اپنا فعال کردار ادا نہیں کیا،یہ آرڈیننس حکومتی این آر او ہے،واضح ہوگیا کہ این آر او کس کو ملا ہے،این آر او کون مانگ رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایک طویل عرصے سے ہم پی ٹی آئی کی جانب سے احتساب کا نظریہ سنتے آئے ہیں،لیکن حکومت کے آرڈیننس کے بعد وہ نظریہ ختم ہوگیا،کبھی وہ شوگر کمیشن اور کبھی آٹے کی قیمت میں سب عیاں ہوگیا ہے،نیب آرڈیننس سے مکمل طور پر احتساب کا نظریہ دم توڑ گیا ہے۔ پی ٹی آئی کا احتساب نظریہ ختم ہوگیا ہے،مہنگائی عروج پر ہے،پیٹرول کے نرخ اتنی کبھی ہائی نہیں ہوئے،بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا،مزدوروں کی چھانٹی بھی ہوئی،20 ہزار لوگوں کو ایک قلم کے اشارے پر فارغ کردیا گیا،پی ٹی آئی کو شاید اندازہ ہے کہ وہ آئندہ الیکشن نہیں جیت سکیں گے،ابھی سے پیش بندی کرکے ایسا قانون لانا چاہتے ہیں،وہ اپنے غیر آئینی اقدام سے اپنا چھٹکارا چاہتے ہیں،نیب آرڈیننس کو رد کرتے ہیں یہ کالا قانون ہے۔