شورش کاشمیری ایک عہد کا نام ہے جو تاریخ کا درخشاں باب ہے

ان کی ذات جرآت اور بے باکی سے لبریز تھی ، وہ غیور اور بہادر انسان تھے ، فرماتے- انسان سے ڈرنا ربوبیت کی توہین ہے

Urooj Asghar عروج اصغر جمعہ 5 نومبر 2021 11:14

شورش کاشمیری ایک عہد کا نام ہے جو تاریخ کا درخشاں باب ہے
یاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 نومبر2021ء) شورش کاشمیری ایک عہد کا نام ہے جو تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ ان کی ذات جرآت اور بے باکی سے لبریز تھی ، وہ غیور اور بہادر انسان تھے ، فرماتے- انسان سے ڈرنا ربوبیت کی توہین ہے –
یہ بات صدر حلقہء ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے حلقہء فکروفن، ریاض کے اجلاس میں کہی جو کاشانہء ادب میں صدر حلقہء ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کی زیرِ صدارت منعقد ہوا جس میں عہد ساز صحافی، شعلہء نوا خطیب، بے باک شاعر اور نامور سیاستدان آغا شورش کاشمیری کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا.
تقریب کی نظامت ناظم الامور ڈاکٹر طارق عزیز نے نہایت عمدہ انداز میں کی۔



ڈاکٹر محمود باجوہ کی تلاوت قرآن پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا ۔ انہوں نے نہایت دلکش انداز میں ترجمہ اور تفسیر پیش کی ۔

(جاری ہے)


ہدیہ نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نوجوان ادیب ، شاعر و نعت گو شیخ محمداسلم راہی نے پیش کی

ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے کہا آغا شورش کاشمیری خطابت ، صحافت ، شاعری اور ادب کے شاہسوار تھے ۔ شورش کاشمیری ایک عہد کا نام ھے جو تاریخ کا درخشاں باب ھے ۔


ان کے خطابات میں الفاظ آبشار کی طرح ان کے منہ سے نکلتے اور سامعین کو مسخر کرتے چلے جاتے تھے ۔ ان کے قلم نے جو لکھا وہ معاصر ادیبوں کو نصیب نہیں ۔ جہاں الفاظ بولتے ہوں ، جملے دہکتے ہوں ، تحریر آتش فشاں ہو ، فکر پختہ اور روشن ہو اور انشاء کے قواعد کی پاسداری ہو ، خیالات کسی بارش کی طرح آتے ہوں، اور الفاظ موتی بنتے چلے جاتے ہوں ، وہاں صاحب قلم جری اور بے باک نہ ہو تو ایسا لکھنا ممکن نہیں ہوتا ۔

یہ جری خطیب اور صحافی حالات اور واقعات کے الجھاؤ کے باوجود اپنی ذات اور شخصیت کا صحیح مشاہدہ کرنے پر اس قدر قادر تھا ، اس کا انداز ان کے اپنے مرثیے سے ہوتا ہے ۔ انہیں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں اور ادیبانہ کمال اور خطیبانہ جوہر کا احساس تھا ہی ، لیکن وہ پر وردہ زمانہ یاران آستین بدستاں کے دو گونہ رویوں سے بھی بےخبر نہ تھے ۔ ان کی ذات جرآت اور بے باکی سے لبریز تھی ، وہ غیور اور بہادر انسان تھے ، فرماتے- انسان سے ڈرنا ربوبیت کی توہین ہے ۔

انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد سے استقامت و ایثار کے میدان میں غیر اللہ ٹھکرا دینے کا سبق سیکھا اور انُکے اسلوب نگاری اور اعجاز تحریر سے ادائیں سیکھیں ۔ علامہ اقبال نے ان کی فکر کو جلا بخشی اور اسلام سے غیر متزلزل وابستگی کا شعور دیا مولانا ظفر علی خان نے شعر گوئی کا ملکہ پیدا کیا اور آشوب خطابت کی شہسواری سکھائی ۔ سید عطااللہ شاہ بخاری نے انہیں عشق رسول اور توحید کی راہ پر ڈالا ، اپنی نگاہ کے فیض سے بالا کیا اور مولانا ابو الاعلی مودودی سے انہیں عقیدت تھی جن کی فکری بنیادوں پر مسلمانوںُ کا نشاۂ ثانیہ کا سورج طلوع ہو سکتا ہے ۔

ان کے اشعار
ہر دور میں ہر حال میں تابندہ رہوں گا
میں ز ندہ جاوید ہوں ، پائندہ رہوں گا
تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آیندہ رہوں گا

حلقہء فکروفن کے ناظم الامور ڈاکٹر طارق عزیز نے آغا شورش کاشمیری کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آغا شورش اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ تھے ان کی شاعری منظوم تاریخ کا درجہ رکھتی ہے ، وہ ادب اور سیاست کو زندگی کے بلند مقاصد اور بلند اقدار سے استوار رکھتے تھے پاکستان بننے کے بعد شورش وطن عزیز کی بقا اور استحکام کے لئے آخری سانس تک میدان عمل میں رہے – انہوں نے ان کی معروف نظم "قلم” پیش کی

صفحۂ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم ندرتِ افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
آنکھ کی جھپکی میں ہو جاتا ہے تیغِ بے پناہ آنِ واحد میں حریفوں کو جھکاتا ہے قلم
شاعری میں اس سے قائم ھےخمِ گیسو کی آب نثر میں اعجاز کے تیور دکھاتا ہے قلم
قطع کرنی پڑتی ہیں فکر و نظر کی وادیاں تب کہیں شورشؔ مرے قابو میں آتا ہے قلم

حلقہء فکرو فن کے نائب صدر مخدوم محمد امین تاجر نے حلقہ کا تعارف اور کارکردگی سے آگاہ کیا اور شورش کاشمیری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انکا ادب و سیاست سے وجدانی رشتہ تھا شورش کاشمیری کی ختم نبوت پر بے شمار خدمات ہیں امین تاجر نے مقررین کے شعری اور نژی انداز عقیدت کی بے حد تعریف کی ۔



حلقہء فکروفن کے کے رکن جناب ظفر اقبال نے اپنے ذاتی مشاعدہ کی روشنی میں جناب شورش کو ان الفاظ میں عقیدت کے پھول برسائے جناب شورش کاشمیری کو علم و نظر کی رفعتیں اور ازمائش و ا بتلا میں سیاسی اجلا پن نے بے حد متاثر کیا۔ اس لئے انکے نزدیک ہر علمی وجود ادبی شخصیت اور سیاسی عظمت لائق تحسین ہے۔ آغا شورش کاشمیری کا ہفت روزہ ”چٹان“ بہت معروف اورمقبول رسالہ تھا۔



مہمان خصوصی خطیب ریاض حافظ عبدالوحید نے آغا شورش کاشمیری سےاپنے ذاتی مراسم کی روشنی میں کہا کہ تحریک ختم نبوت میں انکی خدمات بے مثال ہیں ۔ تحریک ختم نبوت آغا صاحب کی زندگی کا اثاثہ عظیم تھا وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کرا کے قادیانیوں کو خارج الاسلام نہ کر لیا۔

آغا شورش کاشمیری کا مو لانا سید ابولاعلی سے علم و اوب کا لازوال رشتہ تھا ۔

اقبال اور قادیانیت ‘تحریک ختم نبوت اورفن خطابت کے موضوع پر شورش کی کتابیں نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔انکی کتابوں”پس دیوارزنداں“ اور ”شب جائے کہ من بودم“ کےمطالعہ کے بعد ہی ہماری نئی نسل کو شورش کے زور قلم کا پوری طرح اندازہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے حلقہ فکروفن کی اس کاوش کو سراہا اور فرمایا شکسپیر کا کہنا ہے کہ جس تنظیم میں فکر اور فن ہو تاہے وہ کامیابی کی منزلیں طے کرتی ہیں ۔



حلقہ ءفکروفن کی مجلس عاملہ کے رکن اور نوجوان شاعر قلب عباس نے آغا شورش کاشمیری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا. گو شورش ہم میں نہیں مگر ان کے قلم سے روشن کئے ہوئے چراغ آج بھی پاکستان کی نظریاتی منزل کی سمت ہماری حقیقی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

شیخ محمداسلم راہی, شیخ محمد ارشد ، پروفیسر مطیع اللہ ، ذیشان قاضی ، طلحہ ظہیر اور سرور خان انقلابی نے بھی شورش کو خراج تحسین پیش کیا ۔



بعد ازاں ایک شعری نشست بھی منعقد ہوئی جس میں شعرائے فکروفن وقار نسیم وامق , قلب عباس , ظفر اقبال , مخدوم آمین تاجر , گلزیب کیانی ,محمد عمران اثر ,سرور خان انقلابی اور ڈاکٹر ریاض عاجز نے حصہ لیا اور منظوم کلام پیش کیا ۔

وقار نسیم وامق
لاکھ دیکھا نظر نہیں آتا
تیرے جیسا نظر نہیں آتا
ہم کہیں جس کو دیدہ ور وامق
کوئی ایسا نظر نہیں آتا

ظفر اقبال
میری آسودگی کو کافی ہے یہ میرا گمان ظفر
کہ تم اپنے لمحوں میں مجھے شمار کرتے ہو

!

قلب عباس
شعور باکمال اور کردار تھا تعمیری
مصنف لاجواب تھا شورش کاشمیری

ڈاکٹر ریاض عاجز
بے باک جری شعلہ نوا تھی جس کی شان
شورش ھے مرد مجاہد پہچان جسکی چٹان

صدر محفل ڑاکٹر محمد ریاض چوھدری نے اختتامی کلمات اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔



ڈاکٹر معمود باجوہ کی دعا کے ساتھ نشست کا اختتام ہوا اور آخر میں مہمانوں کی تواضع پر تکلف کھانے سے کی گئی ۔