Live Updates

چالیس سال بعد افغانستان میں امن کی بحالی کا واضح امکان پیدا ہوا ہے ،شاہ محمود قریشی

عالمی برادری، افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پاسداری کی متقاضی ہے افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے اگلے اجلاس میں طالبان عبوری قیادت کو بھی دعوت دی جائے گی،حکومتوں کی مدتیں محدود ہوتی ہیں جبکہ قومی مفادات ان سے کہیں بالاتر ہیں بھارت افغانستان کے حوالے سے، دروغ گوئی کے ذریعے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ہے،ہماری کاوشوں سے بھارت کا جھوٹ پر مبنی بیانیہ بے نقاب ہو

منگل 16 نومبر 2021 23:31

چالیس سال بعد افغانستان میں امن کی بحالی کا واضح امکان پیدا ہوا ہے ،شاہ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 نومبر2021ء) وزیر خا رجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ چالیس سال کے بعد افغانستان میں امن کی بحالی کا واضح امکان پیدا ہوا ہے ، عالمی برادری، افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پاسداری کی متقاضی ہے،افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے اگلے اجلاس میں طالبان عبوری قیادت کو بھی دعوت دی جائے گی،حکومتوں کی مدتیں محدود ہوتی ہیں جبکہ قومی مفادات ان سے کہیں بالاتر ہیں،بھارت افغانستان کے حوالے سے، دروغ گوئی کے ذریعے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ہے،ہماری کاوشوں سے بھارت کا جھوٹ پر مبنی بیانیہ بے نقاب ہوا، ہم نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے ناقابل تردید شواہد پر مبنی ڈوزیر جاری کیا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا اجلاس میں کیا ۔ سینٹ قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا اجلاس چیئرپرسن شیریں رحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے خصوصی شرکت کی ۔ قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے دیگر اراکین بھی اجلاس میں شریک تھے ۔وزیر خارجہ نے افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورتحال پر اراکین اجلاس کو خصوصی بریفنگ دی ۔

انکا کہناتھا 15 اگست کے بعد ہماری حکمت عملی یہی رہی ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارا تعمیری رابطہ برقرار رہے۔افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا گیا ہے۔میری نظر میں پاکستان نے اپنے اقدامات سے عالمی برادری کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔شاہ محمود قریشی نے کہا ہم نے کوشش کی کہ امریکہ کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ افغانستان سے لاتعلقی کی پالیسی ان کے مفاد میں نہیں۔

اگر افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو وہ خطے کیلئے اور سب کیلئے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ وز یر خارجہ نے کہا یورپی یونین کے ممالک کو بھی ہم نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہم پہلے سے 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں ۔لیکن اگر اب افغانستان میں صورتحال خراب ہوتی ہے تو مہاجرین کی یلغار نہ صرف خطے بلکہ یورپ کی جانب بھی ہو سکتی ہے۔

یورپی یونین کے ممالک نے ہماری بات پر توجہ دی۔ انہوں نے کہا دہشت گردی کے خطرات نہ صرف ہمارے لیے بلکہ سب کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔موجودہ حالات کے تناظر میں افغانستان میں چیلنجز اور مواقع دونوں موجود ہیں۔میری نظر میں، 15 اگست کے بعد ہماری سفارتی کاوشوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔کابل سے مختلف ممالک کے سفارتی عملے کے انخلائ میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہا گیا۔

پاکستان نے 37 ممالک کے 30 ہزار سے زیادہ شہریوں کو کابل سے محفوظ انخلائ میں مدد فراہم کی۔15 اگست کے بعد کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے افغانستان میں ابھرتے ہوئے انسانی بحران کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی۔شاہ محمود قریشی نے کہا اس وقت عالمی برادری افغانوں کی انسانی معاونت کا عندیہ دے چکی ہے ۔افغانستان سے متعلقہ امور پر پاکستان نے لاتعلقی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

ہم نے عالمی برادری کے تحفظات کو طالبان کی عبوری حکومت تک پہنچایا اور انہیں بتایا کہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرنا آپ کے مفاد میں ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشاورت کا میکنزم اپنایا۔ہماری کوشش تھی کہ علاقائی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے۔ وزیر خارجہ نے بتایا اسلام آباد میں 8 ستمبر کو میری صدارت میں افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کا پہلا اجلاس ہوا۔

دوسرا اجلاس تہران میں ہوا،دوشنبے میں وزیر اعظم عمران خان نے صدر تاجکستان اور میں نے تاجک وزیر خارجہ کو افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔ ہماری کوشش تھی کہ غلط فہمیاں دور ہوں اور ہم اجتماعیت کی جانب آگے بڑھیں۔تہران میں 27 اکتوبر کو افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے دوسرے اجلاس کے موقع پر میری تاجک وزیر خارجہ سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔

ٹرائیکا میں امریکہ، روس، چین اور پلس میں پاکستان شامل ہے، مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہناتھا یہ ایک انتہائی اہم فورم ہے کیونکہ اس میں پی 5 میں سے تین ممالک شامل ہیں۔ہماری سفارتی کاوشوں سے ٹرائیکا پلس کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔21 اکتوبر کو میں خود افغانستان گیا اور وہاں مجھے طالبان کی عبوری حکومت کی اہم قیادت سے ملاقات اور تبادلہ ئ خیال کا موقع ملا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت سازی کے سیکنڈ فیز میں ہم نے تاجک اور ازبک سمیت تمام گروہوں کو نمائندگی دی ہے، ہم نے طالبان کی عبوری قیادت کو قائل کیا کہ وہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کریں۔ہماری دعوت پر ان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں ایک اعلیٰ وزارتی وفد پاکستان آیا۔افغانستان 38 ملین کا ملک ہے وہاں پچھلے دو سال سے قحط جیسی صورتحال ہے۔

ہم نے بحیثیت ہمسایہ انہیں ادویات، خوراک و دیگر انسانی امداد زمینی و ہوائی ذرائع سے پہنچائیں۔ وزیر خارجہ نے کہا میں نے دورہ کابل کے دوران وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے 5 ارب روپے معاونت کا اعلان کیا۔ جنیوا میں افغانستان کی انسانی معاونت کیلئے 1.2 ارب ڈالر کی معاونت کا عندیہ دیا گیا۔جی 20 کے اجلاس میں ایک ارب یورو انسانی معاونت فراہم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔

اس وقت میری نظر میں افغانستان کے تمام 34 صوبے طالبان کے زیر نگیں ہیں۔افغانستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا خوش آئند بات یہ ہے کہ افغانستان میں سول وار اور مہاجرین کی یلغار کا خطرہ ٹل گیا۔15 اگست کے بعد سوشل میڈیا پر ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر پابندیاں عائد کروانے کیلئے کمپین چلائی گئی جسے پاکستان نے بے نقاب کیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ چالیس سال کے بعد افغانستان میں امن کی بحالی کا ایک واضح امکان پیدا ہوا ہے۔عالمی برادری،کا بنیادی مطالبہ محفوظ راستے کی فراہمی تھا جس میں ہم نے بھرپور معاونت کی۔ عالمی برادری، افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پاسداری کی متقاضی ہے۔طالبان عبوری حکومت کے مطابق ان کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے کافی وسائل موجود نہیں۔

قطر، ازبکستان،ترکمانستان کے وزرائے خارجہ کابل گیے ہیں اور ان سے مل کر آیے ہیں۔افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے اگلے اجلاس میں طالبان عبوری قیادت کو بھی دعوت دی جائے گی۔پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا،جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی تاکہ قومی اتفاق رائے قائم کیا جائے۔ 15 اگست کے بعد سات وزرائے خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا۔

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے چھہترویں اجلاس کے موقع پر میری سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور صدر سلامتی کونسل سمیت بہت سے ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات ہوئی۔نیویارک میں سیکرٹری بلنکن کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی۔امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلکن کے ساتھ ملاقات بہت سود مند رہی۔ہماری کاوشوں سے ہندوستان کا جھوٹ پر مبنی بیانیہ بے نقاب ہوا۔

حکومتوں کی مدتیں محدود ہوتی ہیں جبکہ قومی مفادات ان سے کہیں بالاتر ہیں۔انہوں نے کہا پاکستان کے خلاف ہندوستان کے پراپگنڈہ کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ہم نے بھرپور کاوشیں کیں۔ہندوستان، افغانستان کے حوالے سے، دروغ گوئی کے ذریعے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ہے۔ہندوستان کی آشیرباد اور منفی رویے سے اشرف غنی کی حکومت بین الافغان مذاکرات میں خلل ڈالتی رہی۔ ہم نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے ناقابل تردید شواہد پر مبنی ڈوزیر جاری کیا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات