زراعت کو نفع بخش کاروبار بنانے کے لئے جدید رحجانات کو اپنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ تخفیف غربت بھی ممکن بنائی جا سکے:وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں

بدھ 1 دسمبر 2021 16:27

زراعت کو نفع بخش کاروبار بنانے کے لئے جدید رحجانات کو اپنانا وقت کی ..
فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ یکم دسمبر2021ء) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ زراعت کو نفع بخش کاروبار بنانے کے لئے جدید رحجانات کو اپنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ تخفیف غربت بھی ممکن بنائی جا سکے جس کے لئے زرعی سائنسدانوں، پالیسی میکرز اور انڈسٹری کو مربوط کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اسلام آباد کے 32ویں مڈکیریئر مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کو کم پیداواریت، زمین کی زرخیزی، سکڑتا ہوا زرعی رقبہ، پانی، تصدیق شدہ بیج کی عدم دستیابی سمیت بے بہا مسائل کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ روایتی طریقہ کاشت کی وجہ سے ہماری فی ایکڑ پیداوار انتہائی کم ہے اگر زرعی سائنسدانوں کی سفارشات پر عمل کیا جائے تو پیداوار میں بڑھوتری کی جا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ قدرت نے پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے مگر بدقسمتی سے ہم ان کا دانشمندانہ استعمال نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ غذائیت کی کمی کی وجہ سے صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں اگر ہم گندم اور مکئی کی آمیزش سے آٹا تیار کریں تو اس سے غذائی معیار میں بھی بہتری آئے گی۔ ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ پاکستان کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 31من ہے جبکہ ترقی پسند کاشتکار 60من تک حاصل کر رہے ہیں۔

انہوں نے  کہا کہ ہمارے ہاں کسان کے پاس وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اسے زرعی مداخل حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے مجموعی طور پر فی ایکڑ پیداوار میں کمی کا مسئلہ لاحق رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھادوں کے متناسب استعمال پیداواریت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کی معاشی حالت کو بھی بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس سال پاکستان کو 175ارب روپے کی گندم درآمد کرنا پڑی جو کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 10سے بیس فیصد اجناس زائد المیعاد ہارویسٹرز کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے اگر حکومت ہارویسٹر پر 35 سے 40ارب تک سبسڈی فراہم کرے تو اس سے اربوں روپے کی گندم بچائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو سطح پر مرغیاں پالنے کو فروغ دیا جائے تو اس سے غربت میں گھرے ہوئے افراد کو باآسانی انڈے اور گوشت کی دستیابی سے پروٹین کی کمی جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی کے سائنسدانوں کو یونی کوڈ کے نام سے مرغیوں کی ایک قسم تیار کی ہے جو کہ سال میں 200 سے زائد انڈے دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی بصیرت کے مطابق بیک یارڈ پولٹری کا فروغ ایک سنگ میل ثابت ہو گا جو کہ صحت مند معاشرے کی بنیاد فراہم کرے گا۔