نئے چہرے نظر آنے چاہئیں ،علی محمد خان وزراء کو ایوان میں لیکر آئیں، چیئر مین سینٹ کی ہدایت

ْہم آرمڈ فورسز کے خلاف نہیں ہیں سول اداروں کی ملٹرائزیشن قبول نہیں ہے، سینیٹر رضا ربانی

منگل 18 جنوری 2022 14:48

نئے چہرے نظر آنے چاہئیں ،علی محمد خان وزراء کو ایوان میں لیکر آئیں، ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جنوری2022ء) چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی نے کہاہے کہ وزیر مملکت پارلیمانی امور وزراء کو لیکر ایوان میں آئیں تاکہ نئے چہرے نظر آئیں ۔ منگل کو سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ نادرا میں کتنے آرمڈ فورسز کے ریٹائرڈ ملازمین کو بھرتی کیا گیا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ اس سوال کے انچارج وزیر شیخ رشید احمد ہیں،رضا ربانی نے کہاکہ سینیٹ میں اپنے سوالات کے جواب دینے وزراء نہیں آتے، چیئرمین سینیٹ کو رولنگ دینی چاہیے کہ وزراء سوالات کا جواب دینے آئیں۔

چیئر مین سینٹ نے کہاکہ وزیر مملکت پارلیمانی امور وزراء کو لیکر آئیں تاکہ نئے چہرے نظر آئیں۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہاکہ وزراء گزشتہ روز بھی سینیٹ اجلاس میں موجود تھے، سینیٹر مشتاق احمد کا سوال ڈیپوٹیشن کے حوالے سے تھا جس کا جواب آگیا، آرمڈ فورسز سے ملازمین کی تعیناتی کے حوالے سے نیا سوال جمع کرایا جائے۔

(جاری ہے)

سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ میرے سوال میں واضح موجود ہے اور آرمڈ فورسز کے ریٹائرڈ ملازمین کو پرکشش مراعات پر بھرتی کیا گیا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ آخر حکومت اس سوال کا جواب کیوں نہیں دیتی ہمارے نوجوان بے روزگار ہیں۔ علی محمد خان نے کہاکہ تازہ سوال جمع نہیں کرایا گیا اور پرانے سوال کو دوبارہ چھاپ دیا گیا، آرمڈ فورسز جو ملکی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے اس سے اتنی نفرت کیوں ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ اینٹی نارکوٹکس فورس کے ڈائریکٹر، اسپارکو، ایرا کے چیئرمین اور پی آئی اے کے چیئرمین کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہے۔

انہوںنے کہاکہ چیئرمین واپڈا، اقتصادی مشاورتی کونسل، ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس، این ڈی ایم اے کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہے۔ انہوںنے کہ اکہ ہم آرمڈ فورسز کے خلاف نہیں ہیں سول اداروں کی ملٹرائزیشن قبول نہیں ہے۔ علی محمد خان نے کہاکہ میں سوال کا جواب دے رہا ہوں اور ممبر کے سوال پر ہم نے کوئی بات نہیں کی۔ علی محمد خان نے کہاکہ سول ملٹری ایمبیلنس ہمیں نہ سکھائیں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔

انہوںنے کہاکہ بے نظیر بھٹو کو بھی وزارت داخلہ چلانے نصیر اللہ بابر کی ضرورت تھی۔ علی محمدخان نے کہاکہ اگر یونیفارم پرسن کو تعینات کیا جاتا ہے تو وہ ڈیلیور کررہے ہیں، اگر کوئی 25 سال بارڈر پر گولی کھانے کیلئے تیار ہوتا ہے کیا اس کا حق نہیں ہے،نفرت کی بنیاد پر سیاست کرنا درست نہیں ہے۔ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ منسٹرز کو یہاں آکر بیٹھنا چاہیے سارا بوجھ علی محمد خان پر ہے، گزشتہ روز ایک منسٹر کا دیدار میری وجہ سے ہوا۔

قائد ایوان سینیٹ ڈاکٹر شہزاد وسیم نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ جہاں پالیسی بیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے شاہ محمود قریشی وہاں جاتے ہیں، کوئی اس خوش فہمی میں نا رہے کہ آپکی زیارتوں کیلئے کوئی یہاں آتا ہے، آپ نادرا کا سوال ملٹری پر لے گئے ملٹری بھی تو اسی ملک کی ہے،آپ کا کبھی محبت اور کبھی نفرت کا دور شروع ہوجاتا ہے، کسی نے کہاکہ ہاتھ اٹھ گیا ہے، ہاتھ کی بات کرتے ہیں کوئی بولا ہاتھ سرک گیا ہے، جو کہہ رہے تھے ہم ہاتھ کرنے جارہے ہیں ہاتھ انکے ساتھ ہو گیا،انکا فخر بھی ہاتھ ہی ہے وہ ہاتھ کی صفائی ہے، قانون کے بھی لمبے ہاتھ ہیں، وردی اور بغیر وردی والی بات چھوڑیں ۔

اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم فوج کے خلاف نہیں یہ پاکستان کی فوج ہے، ،مسئلہ کشمیر جو عالمی ایشو ہے اس پرشاہ محمود کیوں نہیں آئے۔اجلاس کے دور ان سابق چیئر مین سینٹ سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ حکومت نے پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ،نیشنل سیکیورٹی پالیسی کو پارلیمان کے اندر لایا جائے ۔

انہوںنے کہاکہ جس پالیسی کو اعلان کیا گیا اس سے صوبوں کو بھی اعتماد میں نہیں کیا گیا ،پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر ملک کی سیکیورٹی پالیسی کیسے بنائی جا سکتی ہے ۔ قائد ایوان نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ یہ پالیسی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں پیش ہوئی،اپوزیشن نے اس کمیٹی کا بائیکاٹ کیا ۔ انہوںنے کہاکہ یہ پالیسی سینٹ کی قائمہ کمیٹی دفاع میں پیش کی جا چکی ہے ،مشیر قومی سلامتی اس پر بریفنگ بھی دے چکے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے پہلی بار ملک میں قومی نیشنل سیکیورٹی پالیسی بنائی ،پ اس پالیسی کی رپورٹ ایوان میں پیش کریں۔ بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا