بلوچستان: چلغوزے کے جنگل میں لگی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا

DW ڈی ڈبلیو اتوار 22 مئی 2022 17:40

بلوچستان:  چلغوزے کے جنگل میں لگی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2022ء) تیزی سے پھیلتی ہوئی آگ حکومتی اداروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود تاحال نہیں بجھائی جا سکی ہے۔ آگ بجھانے کے لیے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے خصوصی آپریشن کیا جا رہا ہے جس میں قدرتی افات کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کی ٹیمیں بھی حصہ لے رہی ہیں ۔

حکام کے مطابق آگ بجھانے کے اس آپریشن میں حصہ لینے کے لیے ایرانی ماہرین بھی آج شیرانی پہنچ رہے ہیں جو کہ ایک خصوصی فائر فائٹنگ طیارے کے ذریعے آگ بجھانے کے آپریشن میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے اہلکار، محمد اقبال شیرانی کہتے ہیں کہ چلغوزے کے جنگل میں لگنے والی آگ سے جنگلی حیات کی پناہ گاہوں کو بڑؑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔

(جاری ہے)

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،''موسمی حرارت اور تیز ہواؤں کے باعث شیرانی کے اس جنگل میں آگ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے ۔

آگ بجھانے کے لیے شروع میں ہی اگر فوری اقدامات کیے جاتے تو تباہی اس قدر زیادہ نہیں ہوتی۔ آگ لگنے کے بعد مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے کی کوشش کی مگر تین افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ اب بھی ریسکیو ورکزر کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں ۔ یہاں جو قریبی دیہات واقع ہیں وہاں کی آبادی بھی کافی تشویش کا شکار ہے ۔

‘‘

اقبال شیرانی کے بقول چلغوزے کے اس جنگل میں آگ دس ہزار فٹ سے زائد بلند چوٹیوں پرلگی ہے اسی لیے ریلیف آپریشن میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا، ''اس جنگل میں اس وقت صورتحال اس قدر تشویشناک ہوچکی ہے کہ یہاں مسلسل ریلیف آپریشن تو کیا جا رہا ہے ۔ لیکن آگ کے شعلے کم ہونے کے بجائے بلند ہوتے جا رہے ہیں ۔

ہماری ایک ٹیم بھی اس ریلیف آپریشن کا حصہ ہے۔ مگر وسائل کی کمی کے باعث آگ بجھانے کا عمل بہت سست روی کا شکار ہے۔‘‘

محکمہ جنگلات بلوچستان کے افسر فاروق خان کہتے ہیں کہ ہولناک آتش زدگی سے جنگل میں ایکو سسٹم اور ریسورسز تباہ ہوتے جارہے ہیں ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ''ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ یہ آگ بنیادی طور پر خیبرپختونخوا کی حدود میں درختوں پر آسمانی بجلی گرنے کے باعث لگی تھی جس نے بعد میں چلغوزے کے اس جنگل کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔

ہماری ٹیمیں آگ بجھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہیں ۔ چونکہ یہ ایک وسیع علاقہ ہے اور جنگل کی سطح زمین سے اونچائی بھی بہت زیادہ ہے اس لیے آگ بجھانے کے عمل میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘‘

فاروق خان نے بتایا کہ آتش زدگی سے متاثرہ جنگل میں ہر سال سات سو میٹرک ٹن سے زائد چلغوزہ پیدا ہوتا ہے جس کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مالیت 3 ارب ڈالرز سے زائد ہے ۔

انہوں نے مزید کہا ،''اس جنگل میں مقامی آبادی کے زورگار کا واحد ذریعہ چلغوزے کے یہی درخت تھے جو کہ اب جل کر راکھ بنتے جا رہے ہیں ۔ جنگل میں ایک ایکٹر پر 9 سو سے زائد درخت لگے ہوئے ہیں جو کہ تیزی سے آگ کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ اگر یہ صورتحال یوں ہی برقرار رہی تو مزید گھمبیر شکل اختیار کرجائے گی۔ جنگل کی تباہی سے درجہ حرارت بھی بہت بڑھ گیا ہے جس کے باعث مقامی دیہاتوں کے لوگوں کا موسمیاتی تبدیلی سے شدید طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

‘‘

آگ سے متاثرہ ضلع شیرانی کے اس نایاب جنگل کو اس حوالے سے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر مارخوروں کی نایاب نسل، سلیمان مارخور، کی پناہ گاہیں بھی موجود ہیں۔

ماہرین کے بقول جنگل میں آتشزدگی سے صوبے میں پہلے ہی تباہی سے دوچار ماحولیاتی صورتحال پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔

بلوچستان میں ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کی صورتحال پر ریسرچ کرنے والے ڈاکٹر ندیم خان کہتے ہیں، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اورآتش زدگی کے واقعات سے صوبے میں درجہ حرارت ہر سال غیرمعمولی طور پر بڑھ رہا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،'' اس وقت پاکستان خطے کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات سامنے آرہے ہیں ۔ بلوچستان میں کثیر رقبے پر محیط جنگلات کے تحفظ کے لیے اقدمات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اکثر اوقات شعور کی کمی کے باعث بھی لوگ ان جنگلات میں آگ لگا کر چھوڑ جاتے ہیں جس سے بعد میں وہ آگ پھیل جاتی ہے ۔

شیرانی کے جنگل میں پھیلنے والی آگ سے مقامی آبادی بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ اس وقت وہاں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘

ندیم خان کا کہنا ہے کہ قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ حکومتی اداروں کے پاس ایسی ہنگامی صورتحال سے بروقت نمٹنے لئے وسائل بھی بہت کم ہوتے ہیں ۔'' 18 مئی کو لگنے والی آگ پر ابھی تک کیوں قابو نہیں پایا جا سکا ہے؟ اس وقت مقامی ابادی یہ دعائیں کر رہی ہے کہ قدرت بارش برسائے تاکہ آگ جلدی بجھ سکے۔

"

بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ کہتی ہیں کہ شیرانی کے علاقے میں لگنے والی آگ سے زمری، کھجوری اور تخت سلیمان کے علاقوں میں زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''ضلع شیرانی میں پہلے بھی آگ لگ چکی ہے جو کہ وہاں بروقت بجھادی گئی تھی۔ طورغر نامی علاقے سے پھیلنے والی اس تازہ آگ کو بجھانے کے لیے حکومت تمام وسائل بروئے کارلا رہی ہے ۔

آگ بجھانے کے دوران جو 15 مقامی افراد لاپتہ ہوئے تھے انہیں ریسکیو کرکے محفوظ مقام تک منتقل کردیا گیا ہے۔‘‘

شدید گرم موسم میں پھیلنے والی آگ بجھانے کے اس خصوصی آپریشن کی مانیٹرنگ کے لیے کوئٹہ میں ایک کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا ہے ۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے بھی ضلع شیرانی کا دورہ کیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس حوالے سے گزشتہ روز ایک اجلاس کی صدارت کی تھی ۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو شیرانی کے جنگل میں پھیلنے والی اگ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی۔