لیڈرز ان اسلام آباد بزنس سمٹ میں وقافی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پاکستان کی ترقی کیلئے 4 نکاتی ایجنڈا پیش کردی

بدھ 17 اگست 2022 23:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اگست2022ء) وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاہے کہ ملکی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، اپنی پیداوار کا 10 فیصد برآمد کرنے والی کمپنیوں کو ٹیکسز میں نمایاں چھوٹ دی جائے گی۔ یہ بات وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بدھ کو مقامی ہوٹل میں منعقدہ پانچویں لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔

دو روزہ سمٹ کی میزبانی نٹ شیل کانفرنسز گروپ اور مارٹن ڈاؤ گروپ مشترکہ طور پر اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کی اسٹریٹجک شراکت داری میں کررہے ہیں۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت اُن کمپنیوں سے مکمل تعاون کرے گی جو مختلف ممالک کو اپنی مصنوعات برآمد کرنا چاہتی ہیں، برآمدات کرنا ایک مشکل کام ہے، جسے ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے،پاکستان میں مختلف کاروباری گروپ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ٹیکسوں اور مختلف طریقوں سے قومی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں،ہم ہر سال درآمدات پر 200 ملین ڈالرز خرچ کرتے ہیں، جس کے باعث زرمبادلہ ذخائر پر دبائو پڑتا ہے، اس مسئلے سے چھٹکارا پانے کے ہمیں برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کم کرنا ہوگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کاروباری ادارے مقامی مارکیٹ کے ساتھ غیرملکی منڈیوں پر بھی توجہ دیں،ویلیو ایڈیشن سے ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں اپنے اخراجات اور درآمدات کو ضرورت کے مطابق رکھنا چاہیے، جس سے بجٹ خسارہ کم کیا جاسکتا ہے، گزشتہ چار سے پانچ سال کے دوران بجٹ خسارہ دگنا ہوکر 4500 ارب روپے تک جا پہنچا ہے، موجودہ حکومت خسارے کو کم کرکے 4000 ارب روپے تک لانے کی کوشش کر رہی ہے،حکومت راتوں رات برآمدات میں اضافہ نہیں کرسکتی، لیکن غیرضروری اشیاء کی درآمدات کو کنٹرول کرسکتی ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ چند ماہ میں انٹربینک مارکیٹ میں 7 سے 8 سو ملین ڈالرز کا زرمبادلہ آیا اور ہم نے اپنے طے شدہ قرضے بھی ادا کردیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے زرعی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے، جس سے دیہی علاقوں میں غربت میں کمی آئے گی، ملک کے بہتر مستقبل کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم دینی چاہیے، پرائیویٹ سیکٹر کو حکومت کے ساتھ مل کر بچوں اور بچیوں کے لیے اسکول قائم کرنے چاہئیں۔وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی قومی سلامتی کا معاملہ ہے، جس نے ملک بھر میں خوراک اور توانائی، سپلائی چین، انفرااسٹرکچر اور شہریوں کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، اس وقت پاکستان کا پانچواں حصہ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے زیرآب ہے، بارشوں سے بلوچستان اور سندھ سمیت ملک کے کئی حصوں میں انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے، اس کے علاوہ گزشتہ تین سال سے پاکستان کا شمار دنیا کے گرم ترین مقامات میں ہوتا ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے فرنٹ لائن یا گراؤنڈ زیرو پر ہے، حالانکہ ہماری آفات سے نمٹنے کی تیاری بہت سے ممالک سے کہیں بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کاروبار کے آپریشنل ماڈل کو بہتر بنانا ہوگا، جس میں آب و ہوا اور ماحول دوست کاروباری طریقوں کو شامل کیا جانا چاہیے، صنعتوں کو اپنے سسٹمز میں گرین ٹیک اور گرین پلانز کے اہداف متعارف کروانے چاہئیں،موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنی پیش رفت اور میگا پلاننگ کو 2050 کے بجائے 2030 میں منتقل کرنے کی درخواست کی ہے، جو عالمی معیارات کے مطابق پہلے طے کی گئی تھیں، کیونکہ پاکستان کی صورتحال دنیا کے کئی ممالک سے مختلف ہے، موسمیاتی بحران کی رفتار سائنسدانوں اور ماہرین ماحولیات کی پیش گوئی سے کہیں زیادہ تیز ہے۔

شیری رحمان کے مطابق ماحولیات کی تباہی کے ہم سب ذمے دار ہیں، سوائے چند مغربی یورپ کے ممالک کے، ہر ملک کاربن کے اخراج کے اہداف کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔نٹ شیل گروپ اور کارپوریٹ پاکستان گروپ کے بانی محمد اظفر احسن نے کہا کہ ایک کامیاب معیشت بننے کے لیے پاکستان میں قدرتی اور انسانی وسائل بشمول مختلف موسم اور پھلتی پھولتی نوجوان نسل سمیت تمام ذرائع موجود ہیں، تاہم ملک کو تخلیقی خیالات اور جدید آئیڈیاز کی ضرورت ہے،پاکستان کی بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی ہمارے لیے چیلنج اور موقع بھی ہے،اس لیے ہمیں انھیں تعلیم اور صحیح مہارتوں سے آراستہ کرنا چاہیے،نوجوانوں کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرکے انہیں ملک کے لیے قیمتی اثاثہ بنایا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور ترقی سمیت ہر شعبے میں لامحدود مواقع موجود ہیں، لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔مارٹن ڈاؤ گروپ کے چیئرمین علی اکھائی نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جس میں بے پناہ صلاحیت ہے،ہمارے نوجوانوں کے پاس نئے آئیڈیاز کی بھرمار ہے، جب کہ انویسٹرز ملک میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ کاروبار، سرمایہ کاری، نئے آئیڈیاز اور شراکت داری کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے۔

سمٹ سے معزز مقررین جیمز مائیکل لافرٹی، سی ای او اور بورڈ ممبر، فائن ہائی جینک ہولڈنگ، کھوبو ہاک، چیئرمین انفرا زمین، ذیشان شیخ، کنٹری منیجر پاکستان اینڈ افغانستان، آئی ایف سی۔ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن، حاتم بامطرف، صدر اور سی ای او پی ٹی سی ایل گروپ، یوسف حسین، صدر اور سی ای او، فیصل بینک لمیٹڈ، ملک العقیلی، سی ای او، گولڈن وہیٹ فار گرین ٹریڈنگ لمیٹڈ، عامر ابراہیم، چیف ایگزیکٹو آفیسر، جاز (VEON)، مارکس اسٹروہمیئر، منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او، سیمنز پاکستان، ثاقب احمد، کنٹری منیجنگ ڈائریکٹر SAP پاکستان، پروفیسر فرانسس ڈیوس، پبلک پالیسی کے پروفیسر، یونیورسٹی آف برمنگھم اور وِزنگ پروفیسر فیلو، یونیورسٹی آف آکسفورڈ، یو کے، فاطمہ اسد سید، سی ای او، اباکس کنسلنگ ٹیکنالوجی (پرائیویٹ) لمیٹڈ، مجیب ظہور، منیجنگ ڈائریکٹر، ایس اینڈ پی گلوبل، غضنفر اعظم، صدر اور سی ای او، موبی لنک مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈ، ماہین رحمان، چیف ایگزیکٹو آفیسر، انفرا زمین، محمد شعیب، سی ایف اے، سی ای او، المیزان انویسٹمنٹ مینجمنٹ لمیٹڈ اور عائلہ مجید، بانی اور سی ای او پلینیٹیونے خطاب کیا۔