Live Updates

ہائی کورٹ کا خاتون جج دھمکی کیس میں عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ خارج کرنے کا حکم

سابق وزیر اعظم کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی، عدالت عالیہ

پیر 19 ستمبر 2022 16:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 ستمبر2022ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج دھمکی کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ خارج کرنے کا حکم دے دیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری اور اعلی پولیس افسران کو دھمکیاں دینے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے کچھ دیر بعد سنادیا گیا۔

سماعت کیلئے عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر، پولیس پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی اور پولیس کے تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہوئے۔فیصلے کے مطابق سابق وزیر اعظم کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔

(جاری ہے)

گزشتہ سماعت میں عدالت نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر جے آئی ٹی سے آئندہ سماعت تک رپورٹ طلب کی تھی۔

پیر کو ہونے والی سماعت کی آغاز میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ جے آئی ٹی نے اس کیس میں کیا رائے دی ہی پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی کی یہی رائے ہے کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعہ بنتی ہے۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کے فیصلے میں دہشت گردی کے مقدمات کے نکات واضح ہیں، موجودہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی گرائونڈز موجود نہیں ہے، یہ مقدمہ عالمی دنیا میں پاکستان کی کیا تصویر پیش کرے گا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کو چھوڑ دیں، دلائل میں متعلقہ رہیں۔دوران سماعت عدالت کی جانب سے عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھنے کا حکم دیا گیا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پراسیکیوٹر کو حکم دیا کہ دھمکی آمیز جملے کون سے ہیں وہ پڑھیں، پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان نے کہا کہ شرم کرو آئی جی اور ڈی آئی جی، ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے، کیس کریں گے، مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہو جا آپ کے اوپر بھی ایکشن لیں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ صرف یہی جملے ہیں عمران خان کی وکیل نے کہا کہ یہ مقدمہ بنا کر دہشتگردی کی دفعات کا مذاق بنایا گیا ہے، عمران خان نے خاتون جج اور پولیس افسران کو لیگل ایکشن کا کہا، عمران خان کی اس گفتگو پر کوئی مقدمہ بنتا ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عمران خان کی گفتگو زیرالتوا تفتیش پر اثرانداز انداز ہونے کی کوشش نہیں سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اخراج مقدمہ کی درخواست دائر ہونے تک مقدمہ میں دہشتگردی کے علاوہ مزید دفعات شامل نہیں تھیں۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ سے سیکشن 186 نکال دی گئی ہے، مقدمہ میں پولیس ملازم کو زخمی کرنے کی دھمکی کی دفعہ 189 شامل کر دی گئی ہے۔دوران سماعت عدالت نے سلمان صفدر ایڈووکیٹ کو عمران خان کے خلاف دیگر دفعات اور انکی سزائیں بتانے کی ہدایت کی۔سلمان صفدر نے کہا کہ یہ باقی 4 دفعات تو 12 دنوں تک گرانڈ پر موجود ہی نہیں تھیں، عمران خان کے دونوں جملوں میں کہا گیا کہ کیس کریں گے اور ایکشن لیں گے، کہاں بدامنی ہوئی حالات خراب ہوئے ہیں حالات صرف درخواست گزار کے خراب ہوئے، کبھی ایک عدالت تو کبھی دوسری عدالت میں پیش ہورہے ہیں، ان دفعات میں سے کوئی ایک بھی اس مقدمہ میں نہیں بنتی۔

عمران خان کے وکیل نے مزید کہا کہ یہ کہنا کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا کوئی جرم نہیں جب تک اس میں جارحیت شامل نہ ہو، عمران خان نے کہا پولیس افسران پر کیس کریں گے اور خاتون جج کے خلاف قانونی ایکشن کا کہا، مقدمہ میں لکھا گیا کہ عمران خان کے بیان سے جج اور پولیس افسران کو دھمکایا گیا۔سلمان صفدر نے کہا کہ مقدمے میں لکھا گیا کہ عمران خان کے بیان سے عوام میں خوف و ہراس پھیلا، سب کے سامنے ہے کہ عمران خان کے بیان سے کہاں خوف و ہراس پھیلا، عمران خان نے پولیس کو دو جواب جمع کرائے وہ مطمئن نہیں ہوئے تو خود پیش ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے عمران خان سے ایک ہی سوال پوچھا کہ آپ کے بیان سے خاتون جج اور آئی جی دہشت ذدہ ہوئے، عمران خان نے کہا کہ میرا کسی کو دہشت ذدہ کرنے کا کوئی مقصد نہیں تھا، عمران خان کی تقریر سے کہاں کسی کو نقصان پہنچا کہاں بدامنی ہوئی یا خوف پھیلا، انکیسز نے تو عمران خان ہی مشکلات میں مبتلا ہوئے ہیں۔سلمان صفدر نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ پولیس کہہ رہی ہے کہ عمران خان کے خلاف چالان تیار ہو چکا ہے، اس عدالت نے پولیس کو چالان جمع کرانے سے روک رکھا ہے، عمران خان نے جو کہا انہیں نہیں کہنا چاہیے تھا، وہ افسوس کا اظہار کر چکے ہیں۔

وکیل عمران خان نے کہاکہ پراسیکیوشن کا کنڈکٹ اس عدالت کے سامنے ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دہشت گردی کی دفعات کا غلط استعمال کافی حد تک رک گیا تھا، پراسیکیوشن اب بھی عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ برقرار رکھنے پر بضد ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگرعمران خان پر یہ دفعات نہیں لگتیں تو آئی جی اور ڈی آئی جی کے پاس پبلک میں ایسے الفاظ کہنے پر کیا فورم ہی جو 2014 میں ہوا کیا وہ کیا تھا کیا اس پر مقدمہ بنتا تھا ایک ایس ایس پی کو سیاسی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے مارا پیٹا گیا تھا، کیا پولیس افسر پر تشدد کرنے والوں پر مقدمہ بنتا تھا جواب میں عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جی، تشدد پر تو مقدمہ بنتا تھا۔

عمران خان کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کیا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی زیرالتوا مقدمہ میں مداخلت کرتا ہے تو توہین عدالت بنتی ہے، آئی جی اور ڈی آئی جی کے پاس کون سا فورم موجود ہی اس طرح تو پھر آپ ایک فلڈ گیٹ کھول دیں گے، ایسا کون سا سیاست دان ہے جو کہیں پر ایسی چیز نہ کہتا ہو،پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ اس طرح کی بات اور کسی نے نہیں کہی، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس بات کو چھوڑ دیں، اس میں نہ جائیں، کیا عمران خان کی پوری تقریر میں زخمی کرنے کی دھمکی موجود ہی پراسیکوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ زخمی کرنا صرف جسمانی طور پر زخمی کرنا نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئی جی یا ڈی آئی جی نے اندراج مقدمہ کیلئے کوئی درخواست دی پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ مجسٹریٹ نے اس مقدمہ کے اندراج کیلئے درخواست دی، دیکھنا یہ ہے کہ یہ الفاظ کس نے کہے، وہ کوئی عام شخص نہیں سابق وزیراعظم ہے، مستقبل کا وزیراعظم بھی ہو سکتا ہے۔انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی سیاسی جماعت کے پاس مضبوط سوشل میڈیا اور فالوورز موجود ہیں، عمران خان کے پڑھے لکھے اور ان پڑھ فالوورز موجود ہیں، عمران خان نے تقریر میں کہا کہ ہم تمہارے اوپر ایکشن لیں گے، یہ نہیں کہا کہ ہم لیگل ایکشن لیں گے، عوام خوف زدہ ہوئے کہ ایک سابق وزیراعظم نے ایسے الفاظ کہے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دہشت گردی کی دفعات کا غلط استعمال تو ہوتا رہا ہے، فیصل رضا عابدی کے خلاف دہشت گردی کے دو مقدمات درج ہوئے اور وہ بعد میں بری ہو گئے۔پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ عمران خان نے جو تقریر کی وہ ڈیزائن کے تحت تھی، جس پر چید جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تفتیش میں ایک تقریر کے علاوہ کچھ بھی نہیں مل سکا، پھر ڈیزان تو موجود نہیں رہا۔

پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ اگر ایس ایچ او کسی کو کہے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا تو اس کے سنجیدہ اثرات اور نتائج ہو سکتے ہیں، بالکل اسی طرح سابق وزیر اعظم کے اس اشتعال انگیز بیان کے بھی اثرات ہیں۔بعد ازاں عدالت نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ برقرار رکھنے یا خارج کرنے کے حوالے سے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات خارج کردیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف انسداد دہشتگردی کے سوا دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔خیال رہے کہ رواں سال 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلی ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں۔اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات