فوجی ادارے کی بجائے آئین توڑنے والے جرنیل کا نام لے کر مذمت کریں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پاکستان کو سب سے زیادہ عوام کی منتخب قیادت کے ذریعے حکمرانی کی ضرورت ہے، پاکستان سے جمہوریت کو نکالنا اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنا اور وطن دشمنی ہے، مجھ سمیت سب آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت قانون و آئین کے پابند ہیں

ہفتہ 22 اکتوبر 2022 22:41

فوجی ادارے کی بجائے آئین توڑنے والے جرنیل کا نام لے کر مذمت کریں،جسٹس ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اکتوبر2022ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ سب کو آئین کا احترام کرنا چاہیے ،فوجی ادارے کی بجائے آئین توڑنے والے جرنیل کا نام لے کر مذمت کریں،مجھ سمیت سب آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت قانون و آئین کے پابند ہیں، ہمیں عوام تنخواہ دیتے ہیں اور انفرادی طور پر ہمارا احتساب کرسکتے ہیں،پاکستان کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا، اس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین کو تحلیل کیا گیا، جمہوریت پر پہلا حملہ ایک بیورو کریٹ غلام محمد نے کیا، مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل کوچیلنج کیا، جمہوریت پر تیسرا حملہ ضیا ء الحق نے کیا تھا ، آئین پھاڑدیاگیا مگر اس کے خلاف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیاگیا، چوتھی بار مشرف نے آئین کو توڑا، سپریم کورٹ نے ریاست کے تنخواہ دار ملازم مشرف کو آئین کی ترمیم کا اختیاربھی دیدیاتھا، ایک تنخواہ دار کو اختیار دینے والے ججز خود بھی تنخواہ دار ملازم تھے،ایک وزیراعظم کو نااہل کیا گیا کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی۔

(جاری ہے)

عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بھٹو کا ٹرائل کسی ملٹری کورٹ نے نہیں سول کورٹ نے کیا تھا، جس بینچ میں فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ آیا، میں اس کا حصہ تھا، میں جونیئر ترین جج تھا اور اقلیتی فیصلے کا حصہ تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا، اس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین کو تحلیل کیا گیا، جمہوریت پر پہلا حملہ ایک بیورو کریٹ غلام محمد نے کیا، مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل کوچیلنج کیا، جمہوریت پر تیسرا حملہ ضیا ء الحق نے کیا تھا ، آئین پھاڑدیاگیا مگر اس کے خلاف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیاگیا، چوتھی بار مشرف نے آئین کو توڑا، سپریم کورٹ نے ریاست کے تنخواہ دار ملازم مشرف کو آئین کی ترمیم کا اختیاربھی دیدیاتھا، ایک تنخواہ دار کو اختیار دینے والے ججز خود بھی تنخواہ دار ملازم تھے۔

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہاکہ پاکستان کو عدلیہ اور ایگزیکٹوکی ضرورت ہے، پاکستان کو بطور ایگزیکٹو حصہ فوج کی ضرورت ہے، پاکستان کو سب سے زیادہ عوام کی منتخب قیادت کے ذریعے حکمرانی کی ضرورت ہے، پاکستان سے جمہوریت کو نکالنا اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنا اور وطن دشمنی ہے، سب کو آئین کا احترام کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ فرد کے کردارپر بات کریں ،ادارے پر تنقید نہ کریں، آئین توڑنے والے جرنیل کا نام لے کر مذمت کریں نہ کہ فوجی ادارے کی، مجھ سمیت سب آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت قانون و آئین کے پابند ہیں، ہمیں عوام تنخواہ دیتے ہیں اور انفرادی طور پر ہمارا احتساب کرسکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک وزیراعظم کو نااہل کیا گیا کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی، میں فیصلے پرتبصرہ نہیں کروں گا لیکن فیصلے میں لکھاگیاکہ آپ نے جو تنخواہ لینی تھی وہ نہیں بتائی، فیصلے میں لکھا کہ آپ نے جو تنخواہ لینی تھی وہ نہ بتا کر سچ نہیں بولا اس لیے آپ اچھے مسلمان نہیں، پھرجے آئی ٹی بنا دی گئی، جے آئی ٹی کا لفظ پہلے نہیں سنا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں درخواست کروں گا کہ آپ ہمیں ایک ادارے کے طور پر نہیں پرکھیں کیونکہ اداروں میں اچھائی بھی ہوتی ہے اور خرابی بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام ہی ہوتے ہیں جو انفرادی طور پر ججوں پر تنقید کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ججوں کے طور پر پرکھیں، جج کی حیثیت سے میرے اوپر تنقید کریں تاہم سپریم کورٹ کی مذمت نہ کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ پاکستان کو عدلیہ، انتظامیہ، فوج اور دیگر اداروں کی ضرورت ہے، عوام کے منتخب لوگوں کے ذریعے ان کی سربراہی کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ ذاتی حیثیت میں تنقید کا خیرمقدم کرتا ہوں اور کبھی کسی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار نہیں دیا تاہم انہوں نے عوام پر زور دیا کہ عوام اداروں پر تنقید سے احتراز کریں کیونکہ اداروں کے بغیر ایک ملک عملی طور پر ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے عوامی کردار کی اہمیت پر انہوں نے ماضی میں ملک کے وزرائے اعظم کو مختلف طریقوں سے قتل، برطرف کرنے اور پھانسی سمیت دی گئیں سزائوں کا ذکر کیا، جن میں لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور ذوالفقار علی بھٹو شامل ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں ان تمام اصطلاحات کا ذکر بھی کیا جو حال میں سیاسی حوالوں سے استعمال کی جاتی رہی ہیں جیسا کہ جے آئی ٹی اور پی سی او (عبوری آئینی حکم نامہ)اور اپنی طرف تجویز دی کہ سی ایم ڈی سی یا سٹیزنز مانیٹڑ آف ڈیموکریسی اینڈ کنسٹی ٹیوشن ہو جس کے تحت عوام کو ان لوگوں کی نگرانی کا حق ملے جن کی تنخواہیں اور پنشنز عوام کے ٹیکسز سے دیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی ایم ڈی سی کے تحت بلیک، گرے اور وائٹ لسٹ ہونی چاہیے اور سب سے پہلے اپنے ادارے عدلیہ سے منسلک افراد کا ذکر کیا۔سپریم کورٹ کے سینئرترین جسٹس نے کہا کہ جج کے بجائے قانون، تاریخ اور سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت میں میری ذاتی رائے میں بلیک لسٹ میں جسٹس منیر، جسٹس انوار الحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کو رکھوں گا۔انہوں نے کہا کہ وائٹ لسٹ میں جسٹس کنسٹینٹائن، جسٹس آچل اور جسٹس محمد بخش ہوں۔

انتظامیہ کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ بلیک لسٹ میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کو رکھیں گے۔انہوںنے کہاکہ ایوب خان نے پاکستان کے آرمی چیف سے پلاٹ مانگا تھا، بعد میں اس آرمی چیف کو ہٹا دیا گیا یوں پلاٹوں کی سیاست شروع ہوئی، پاکستان میں پلاٹوں کی سیاست بہت مشہور ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں وائٹ لسٹ میں وہ سفید فارم انگریزوں پاکستان فوج کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک والٹر میسروی اور دوسرا پاک فوج کا دوسرا کمانڈر انچیف جنرل سر ڈوگلس گریسی کو رکھوں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں تاریخ اسلام کی شان دار روایات کی مثالیں دیں کہ کیسے دبا ئوکا شکار نہیں ہونا چاہیے اور ججوں کے حوالے سے کہا کہ اگر آپ دبا میں ہو اور آپ ملک کو بیچ دیں گے تو تاریخ آپ کو اسی طرح یاد رکھے گی۔