بکریاں پالنے کے جدید طریقے اپنا کر دیہی علاقوں میں غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے،ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک ملتان

اتوار 5 مارچ 2023 19:10

ملتان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 مارچ2023ء) ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک ملتان ڈاکٹر جمشید اختری نے کہا ہے کہ بکریاں پالنے کے جدید طریقے اپنا کر دیہی علاقوں میں غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے، بکریاں پالنے کے جدید طریقے روایتی انداز کے مقابلے میں 20 سے 50 فیصد تک آمدن بڑھانے میں بھی مدد گار ثابت ہوں گے۔ان خیالات کا اظہار ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک ڈاکٹر جمشید اختری نے اتوار کو یہاں اے پی پی سے خصوصی گفتگو میں کیا ۔

انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب مویشیوں کا مرکز ہے لیکن یہاں مویشی پالنے والے زیادہ تر افراد جدید طریقوں سے متعلق آگاہی نہیں رکھتے۔ڈاکٹر جمشید نے بتایا کہ جنوبی پنجاب میں مکھی چینی، نوگری، ناگری اور فیصل آبادی بیتل نسل کی بکریاں بہت مقبول ہیں،بکریوں کی ان نسلوں سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے بکریاں پالنے والوں کو جدید طریقوں پر عمل کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بکریاں دیہی علاقوں میں غربت کے مسئلے کو حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، بکریوں کوغریبوں کی گائے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ غریب اسے آسانی سے پال سکتے ہیں،خواتین بھی آسانی سے بکریاں پال سکتی ہیں کیونکہ یہ طاقتور جانور نہیں ہے،بکریوں کے گوشت کی مانگ بہت زیادہ ہے، غریب افراد بکریوں سے اپنی دودھ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور ان کا گوشت بیچ کر اپنی آمدن میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر جمشید نے بتایا کہ بکریاں پالنے والے جانوروں کاریکارڈ رکھنے،ان کی پرورش پر خرچ ہونے والے اخراجات اور چھوٹے بڑے جانوروں سے حاصل ہونے والی کمائی کے ریکارڈ پر توجہ نہیں دیتے ،پولٹری فارمرز ریکارڈ رکھنے سے متعلق بخوبی واقف ہیں کیونکہ وہ اخراجات اور آمدن میں فرق جانتے ہیں،بکری پالنے والوں کے پاس چارے کے صحیح مقدار میں استعمال، غذائیت، جانوروں کی رہائش، وینٹیلیشن، مویشیوں کے زیادہ ہجوم سے متعلق خاطر خواہ معلومات کی کمی ہے۔

ڈاکٹر جمشید نے کہا کہ بکریاں پالنے والوں کو سائنسی و جدید پرورش کے طریقوں بارے مناسب آگاہی ہونی چاہیے کیونکہ یہ بہت ضروری ہے۔ انہوں نے بکری پالنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بانس کی بجائے مویشیوں کے پین کے گرد جستی تار لگائیں کیونکہ بکریاں بانس کھاتی ہیں جو ان کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے،ڈھکے ہوئے مویشیوں کے فارم میں ہر بکری کے لیے کم از کم 6 سے 10 مربع فٹ جگہ ہونی چاہیے، تاہم کھلے مویشیوں کے لیے یہ جگہ دوگنا ہونی چاہیے۔

انہوں نے کھلے میدان میں جانوروں کو چرانے کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا کہ بکریوں کی رہائش کا فرش خشک ہونا چاہیے اس میں ہوا اور روشنی کا انتظام ہونا چاہیے، بکریوں کی پناہ گاہ کو اس طرح بنایا جائے کہ یہ درجہ حرارت اور نمی کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت موزوں ہو،اسی طرح بارش کا پانی بکریوں کے رہنے کی جگہ اندر نہ جانے دیں،بکریوں کی رہائش گاہ کے ارد گرد کوڑا کرکٹ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں،مویشی پالنے والوں کو چاہیے کہ مستند ویٹرنری ڈاکٹروں سے رابطہ کریں کیونکہ زیادہ تر افراد ٹیسٹوں اور بیماری کی تشخیص کو بالکل نظر انداز کرتے ہیں اور جانوروں کے علاج میں غلطی کرتے ہیں۔

انہوں نے تجویز دی ہے کہ حکومت بکریاں پالنے والوں کو چرانے کے لیے زمین مختص کرے،اس مقصد کے لیے ملک میں بہت بڑی سرکاری جگہیں دستیاب ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ سرمایہ کاروں کو بھی بکریاں پالنے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ اس کا گوشت برآمد کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے گوشت کی زیادہ مانگ ہے، یہ سرمایہ کاروں کو شاندار منافع سے سکتا ہے۔ڈاکٹر جمشید نے کہا کہ جب چارے کی کمی ہو تو بکریوں کو سائیلج اور ونڈا بھی استعمال کروایا جا سکتا کیونکہ یہ غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتے، اسی طرح کیکر کے درختوں کے پتے بھی بکریوں کو کھلائے جا سکتے کیونکہ یہ بھی اچھی غذائیت کے حامل ہوتے ہیں۔

پاکستان پروٹین کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ہمارے ملک میں ہر جسم کو 48 گرام پروٹین جانوروں سے حاصل کرنا چاہیے لیکن ہمارا فی کس استعمال صرف 17 گرام ہے جو کہ بہت کم ہے،بکریاں سال میں دو بار بچے دیتی ہیں اور یہ عام طور پر دو یا تین بچے بھی دیتی ہیں اس لیے یہ غریب خاندانوں میں باورچی خانے کی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔ملتان ڈویژن میں مختلف لوگوں نے 25 لاکھ سے زائد بکریاں پال رکھی ہیں جو جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں میں روزمرہ زندگی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے بہترین ذریعہ ہیں۔