ایس ای سی پی کے زیر اہتمام کارپوریٹ سپروژن اینڈ ریگولیٹری ایکشنز سمپوزیم کا انعقاد، شرکاء کا کارپوریٹ سیکٹر سے متعلق اہم موضوعات پر خطاب

جمعہ 23 جون 2023 20:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جون2023ء) سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)کے زیر اہتمام کارپوریٹ سپر ویژن اینڈ ریگولیٹری ایکشنز پر دو روزہ سمپوزیم کا انعقاد کیا ۔ جمعہ کو سمپوزیم کے پہلے دن عدلیہ کے قابل ذکر ارکان نے پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر سے متعلق اہم موضوعات پر خطاب کیا۔سکیورٹی ایکسچینج کمیشن پاکستان کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ایس ای سی پی کے چیئرمین عاکف سعید نے اپنے استقبالیہ خطبےمیں کہاکہ ہمارا مقصد ایک مضبوط اور بڑھتا ہوا کارپوریٹ سیکٹر بنانا ہے جو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش ہو اورجو ہماری قوم کے لئے معاشی استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ اس اہم مشن میں ہماری خوش قسمتی ہے کہ عالمی بینک ہماری مدد کر رہا ہےاور ہم پاکستان میں کارپوریٹ ماحول کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں ان کی انمول مدد کے لئے تہہ دل سے شکرگزار ہیں۔

(جاری ہے)

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اقتصادی ترقی، علاقائی انضمام اور ایف ڈی آئی میں عدلیہ کے کردار پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا طرز حکمرانی کا جمہوریت، آئین سازی اور معاشی ترقی میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔

ایک ایسی عدلیہ جو انصاف، احتساب اور مساوی رسائی کے اصولوں کو برقرار رکھتی ہے، وہی ہماری قوم کو حقیقی معنوں میں اقتصادی ترقی، علاقائی انضمام اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی طرف لے جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں بھی ذمہ داریوں کی واضح تقسیم ہونی چاہیے تاکہ عدالتوں کی باقی مصروفیات کی وجہ سے کمپنیوں اور کاروبار کے معاملات میں تاخیر نہ ہو۔

سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی ایس آر)اور پاکستان میں اس کی اصلاحات پر پریزنٹیشن دی۔ انہوں نے ملک میں کچھ کامیاب سی ایس آر پروگراموں کا ذکر کیا اورایس ای سی پی کی جانب سے سی ایس آر سے متعلق کی گئی اصلاحات پر بھی روشنی ڈالی جس میں سی ایس آر رپورٹنگ کی گائیڈلائنز، سی ایس آر کا کوڈ آف کارپوریٹ گورننس میں انضمام اور کمپنیوں کواس بارے میں آگاہی کے لیے پروگرام شامل ہیں۔

انہوں نے ان شعبوں کی بھی نشاندہی کی جہاں پاکستان کی کارپوریٹ سی ایس آر کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف لسٹڈ کمپنیوں کو سی ایس آر کی ضرورت کی تعمیل کرنے کی ضرورت ہے اور ایس ای سی پی نے اب تک نرم رویہ اپنایا ہے جسے مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔کارپوریٹ سپرویژن اینڈ ریگولیٹری ایکشنز چیلنجز اینڈ ریفارمز کے سمپوزیم کے پہلے دن کا آخری خطاب جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے "کمپنی بنچ اور کنڈکٹ آف لیکویڈیشن" کے موضوع پر کیا۔

انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ ایس ای سی پی کو اپنے افسران کے لیے فنانس، اکاؤنٹنگ اور قانون میں مہارت لازمی قرار دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے پاکستان میں لیکویڈیٹرز کے لیے معاوضے کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت پر بھی اصرار کیااور موجودہ معیارات کو نا کافی قرار دیا۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کمپنی کیسز کو ترجیح دینے کے حوالے سے بات سےاتفاق کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ایس ای سی پی کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ لیکویڈیشن کیسز کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔جسٹس میاں گل اورنگزیب نے اختتامی تقریر میں کہا کہ ایس ای سی پی ہمیں لیکویڈیٹروں کا ایک ماہر پینل فراہم کرے۔انہوں نے عدالتوں کے ساتھ تعاون پر ایس ای سی پی کے پراسیکیوٹرز کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایس ای سی پی کو قانونی مشیروں کا ایک وسیع پینل رکھنا چاہیے جو نہ صرف لیکویڈیشن بلکہ دیگر کارپوریٹ معاملات میں بھی عدالتوں کی مدد کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ای سی پی اوراسلام آباد ہائی کورٹ کو مل کر بیٹھنا چاہیے تاکہ کمپنی معاملات کا جلد فیصلہ کیا جا سکے۔آخر میں ایس ای سی پی کے چیئرمین عاکف سعید نے ججز میں شیلڈز تقسیم کیں۔اعلیٰ عدلیہ کے ممبران، رجسٹرارز، ممتاز وکلاء، ایس ای سی پی کے ریگولیٹڈ سیکٹرز کے کلیدی عدالتی افسران اور متعلقہ پیشہ ور افراد نے سمپوزیم میں شرکت کی۔