آرٹس کونسل کے زیر اہتمام معروف سیاست دان میر غوث بخش بزنجو کی 34ویں اور میر حاصل خان بخش بزنجو کی تیسری برسی کے موقع پر تقریب کا انعقاد

ہفتہ 26 اگست 2023 22:53

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 اگست2023ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی فوک اینڈ ہیرٹیج کمیٹی کی جانب سے معروف سیاست دان میر غوث بخش بزنجو کی 34ویں اور میر حاصل خان بخش بزنجو کی تیسری برسی کے موقع پر تقریب کا انعقاد آڈیٹوریم IIمیں کیاگیا جس میں بلوچستان کی تاریخ پر مبارک علی کی کتاب’’تاریخ ایران و بلوچستان‘‘ اور جاوید حسن کی کتاب ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ کی رونمائی بھی کی گئی، تقریب میں نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، جنرل سیکریٹری جان محمد، نیشنل پارٹی کے نائب صدر ایوب قریشی، شاہ ویز بزنجو، ، قاضی جاوید ایڈووکیٹ ، پائیلر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کرامت علی، شاہ محمد شاہ، عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما سینئر ایڈووکیٹ اختر حسین، پروفیسر توصیف احمد، مجاہد بریلوی، مجید ساجدی، نور محمد، شاہینہ رمضان، و دیگر نے گفتگو کی۔

(جاری ہے)

جبکہ توقیر چغتائی نے منظوم نظم پیش کی۔اس موقع پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ میر حاصل بزنجو ایک متحرک سیاسی کارکن تھے، انہوں نے اپنے نظریات کے لیے پوری زندگی وقف کردی، میر حاصل بزنجو کہتے تھے کہ میری والدہ روزانہ بی بی سی سنتی تھیں کیونکہ بی بی سی ہی واحد ذریعہ تھا جو میرے والد کی گرفتاری یا رہائی کے بارے میں باخبر رکھتا تھا، اتنی تنگدستی تھی کہ دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی، انہوں نے کہاکہ میرحاصل بزنجو انتہائی بہادر اور ایماندار انسان تھے، انہیں مسلسل جدوجہد پر یقین تھا، میر بخش کہا کرتے تھے کہ سیاسی پارٹیوں کو تقسیم سے بچانا خود ایک فن اور کامیابی ہے، آج نیشنل پارٹی کی قیادت میں ہم آہنگی نظر آتی ہے، انہوں نے کہاکہ حسن جاوید اور مبارک علی نے جو کتاب ترتیب دی ہیں وہ قابل تعریف ہے۔

جان محمد نے کہاکہ دو عظیم بلوچوں نے خطہ میں بھرپور سیاسی کردار ادا کیا، اپنے دور کے بہت بڑے مفکر اور سیاستدان تھے، دونوں نے مشکل گھڑی میں کبھی کوئی غلطی نہیں کی، کبھی مارشلائوں اور مختلف سیاسی قوتوں کو سپورٹ ہوئی مگر ان دونوں نے بہت ہی حکمت عملی سے کام لیا، میر غوث بخش بزنجو نے بہت مشکل دور دیکھا، انہوں نے کہاکہ ہمیشہ قومی اور عوامی مسائل کی بات کی۔

جمہوری طور پر نیشنل پارٹی اپنا وجود رکھتی ہے ہمیں مل کر پارٹی کو مضبوط کرنا ہوگا۔سیاسی رہنما شاہ محمد شاہ نے کہاکہ میرا سیاسی استاد میر غوث بخش بزنجو تھے جس پر مجھے فخر ہے، جس نے مجھے انسان بنایا ، میں انہیں بابا کہتا تھا، ہم ان کی سیاست کے سپاہی ہیں اور اس کے لیے ہماری جان بھی قربان ہے۔ قاضی جاوید ایڈووکیٹ بزنجو نے کہاکہ دونوں شخصیات کا پاکستان کی تاریخ بہت بڑا نام ہیں، میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں پارٹی کے لیے اپنی خدمات جاری رکھوں گا، ہمیں اپنے نظام کو صحیح کرنے کے لیے اپنی تحریک کا دائرہ بڑھانا پڑے گا، انہوں نے کہاکہ ہمیں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس میں غدار اور وفا دار کون ہے، پائیلر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کرامت علی نے کہاکہ میر صاحب کا شمار حقیقی کام کرنے والوں میں ہوتا ہے، ان میں کسی قسم کا تعصب نہیں تھا ، وہ اقتدار کی نہیں بلکہ لوگوں کی جنگ لڑرہے تھے، وہ ہمیشہ عوام کے لیے سوچتے اور جس بات پر یقین رکھتے تھے اس کے لیے قربانی دینے کو تیار رہتے، غوث بخش مجھے اپنا بیٹا سمجھتے تھے اور حاصل بزنجو میرے چھوٹے بھائی کی طرح تھے، ہم نے بہت اچھا وقت گزارا، انہوں نے کہاکہ ہمیں ایسا محاذ بنانے کی ضرورت ہے جو پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری فیڈریشن بنائے جہاں تمام لوگوں کے برابری کی بنیاد پر حقوق ہوں، انہوں نے کہاکہ آبادی کی بنیاد پر اسمبلیاں نہیں ہونی چاہئیں بلکہ ہر قوم کی مؤثر نمائندگی ، مکمل خود مختاری اور عام لوگوں کی شمولیت کی جمہوریت ہونی چاہیے ۔

پروفیسر توصیف احمد نے کہاکہ میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو نے ساری زندگی سیاسی جدوجہد کی، ان کی قربانی رائیگاں نہیں جانے دیں گے، انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک میں مہنگائی کا بحران ہے، سیاسی صورت حال اور شہری آزادی کا مسئلہ انتہائی بدترین شکل اختیار کرچکا ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ نیپ کی طرح ایسا کو محاذ بنے جو حقیقی طور پر پاکستان میں پارلیمنٹ اور سویلین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرے۔

مجاہد بریلوی نے اقتباس کرتے ہوئے کہاکہ میر غوث بخش بزنجو بہت نڈر انسان تھے، بیماری کے باوجود وہ تنظیم سازی اور سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے، کراچی میں ملاقات ہوئی تو چہرے کی سرخی ماند ہوچکی تھی مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، انہوں نے کہاکہ ’’اس بیماری نے میرے خاندان کے کئی بزرگوں کو مارا مگر میں اسے شکست دوں گا‘‘۔ انہوں نے کہاکہ آج بلوچستان میں نیشنل پارٹی کو جو حیثیت حاصل ہے اس میر حاصل خان بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا اہم کردا رہے، درحقیقت یہ ہے کہ 80اور 90ء کی دہائی میں بلوچستان میں ترقی پسند، سیکولر، قوم پرست سیاست کا جو شیرازہ بکھرا اس وسیع پلیٹ فارم پر لانے میں میر حاصل خان بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بڑی محنت اور تحمل مزاجی سے ادا کرکے بلوچستان کو مذہبی انتہا پسندوں سے بچایا، نور محمد نے کہاکہ کراچی میں ہر زبان بولنے والا بستا ہے آج ہم عہد کریں کے کہ صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی پارٹی کے لیے خدمات سرانجام دیں گے، ہمیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی تاکہ انقلاب برپا ہوسکے۔

نیشنل پارٹی کے نائب صدر ایوب قریشی نے کہاکہ میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو اپنے عہد کے نامور سیاست دانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، آزادی کے لیے جنگ لڑنے والوں میں میر غوث بخش بزنجو نے اہم کردار ادا کیا، ظالم اور جابر حکمرانوں کے سامنے میر صاحب سینہ سپر ہوتے تھے، اس کے جانے کے بعد میر حاصل خان بزنجو نے جنرل ضیاء کی آمریت میں جس طرح طالب علموں کی رہنمائی اور ترقی پسند تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اس فسطائی حکومت اور اسلامی جمعیت کے خلاف جدوجہد کی وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے۔